کوئی نہیں کہ جسے آشنائے راز کریں

کوئی نہیں کہ جسے آشنائے راز کریں
تو کیوں نہ پھر غم دل ہی سے ساز باز کریں


بنا کے ان کو بھی خوگر نیاز پیہم کا
وہ دن بھی آئے کہ ہم بھی بتوں سے ناز کریں


حساب ہو چکا کوتاہ دستیوں کا تو اب
خیال سلسلۂ گیسوئے دراز کریں


اگر شراب میں مستی بھی ہے خمار بھی ہے
تو کیوں نہ آرزوئے چشم نیم باز کریں


نظر میں تند تشنہ بڑھا اے شوق
کہ جس سے ہر دل مینا کو پھر گداز کریں


حضور پیر مغاں لغزشوں کی پرسش ہے
لو آؤ اپنے بھی قدموں کو سرفراز کریں


سفر شباب کا گر عذر تھا تو اب سر شام
قضائے عمر پڑھیں نیت نماز کریں