Khursheed Alig

خورشید علیگ

خورشید علیگ کی غزل

    یہ ماہ پارے تو دل کو لبھائے جاتے ہیں

    یہ ماہ پارے تو دل کو لبھائے جاتے ہیں جو غم کے مارے ہیں دل کو گنوائے جاتے ہیں شب فراق یہ آکاش سے خبر آئی کہ غم نصیبوں سے تارے گنائے جاتے ہیں حیات کیا ہے کہ افسانہ درد ناکی کا فسانے درد کے ہر دم سنائے جاتے ہیں جہان کہنہ ہو یا نو یہ وہ جہاں ہے جہاں تماشے غم کے ہمیشہ دکھائے جاتے ...

    مزید پڑھیے

    یہ نہ سمجھو غبار ہیں ہم لوگ

    یہ نہ سمجھو غبار ہیں ہم لوگ خوشبوؤں کی قطار ہیں ہم لوگ لوگ ہم کو خزاں سمجھتے ہیں جب کہ تازہ بہار ہیں ہم لوگ یہ شرافت نہیں تو پھر کیا ہے دشمنوں پر نثار ہیں ہم لوگ وہ بھی کانٹوں سے کم نہیں ہیں کچھ جن کی نظروں میں خار ہیں ہم لوگ تھوڑا ہم سے بھی پیار کر لیجے قابل اعتبار ہیں ہم ...

    مزید پڑھیے

    قصہ تباہیوں کا سنایا نہ جائے گا

    قصہ تباہیوں کا سنایا نہ جائے گا دل میں جو غم چھپا ہے بتایا نہ جائے گا اخلاق سے حسیں کوئی دنیا میں شے نہیں یہ وہ چراغ ہے جو بجھایا نہ جائے گا آزاد اپنے آپ کو سمجھیں گے اس گھڑی جب خون بے بسوں کا بہایا نہ جائے گا ناحق بچھا رہا ہے جہاں سازشوں کا جال اسلام کا وجود مٹایا نہ جائے ...

    مزید پڑھیے

    چاندنی اب تو کھائے جاتی ہے

    چاندنی اب تو کھائے جاتی ہے روشنی دل جلائے جاتی ہے صبح ہوگی کبھی نہیں معلوم تیرگی دل بجھائے جاتی ہے زندگی دی گئی ہے جینے کو موت اس کو مٹائے جاتی ہے کوئی اپنا نہیں زمانے میں بے کسی جی دکھائے جاتی ہے کاش آ جائیں وہ اچانک سے سانس اب لڑکھڑائے جاتی ہے مرگ مجنوں سے شور ہے ...

    مزید پڑھیے

    ہم تغافل کو ابتدا سمجھے

    ہم تغافل کو ابتدا سمجھے اور وہ درد کی دوا سمجھے وہ تو بے گانگی میں تھے گویا اور ہم ان کو آشنا سمجھے شورش دل نے جو کہا ہم سے اس کو ہم حکم آپ کا سمجھے ان سے قائم ہوا ہے نقش وفا کوئی ان کو نہ بے وفا سمجھے آشنائے مراد ساحل ہے وہ جو طوفاں کو ناخدا سمجھے کل سر بزم ان اشاروں سے کہیے ...

    مزید پڑھیے

    اپنے آنسو چھپا نہیں سکتے

    اپنے آنسو چھپا نہیں سکتے ہم ترا غم اٹھا نہیں سکتے دل دکھاتے ہو بے وفا کہہ کر کیا مجھے آزما نہیں سکتے بن گئی ہے جو داستان حیات ہم وہ قصہ بھلا نہیں سکتے کیسے کہہ دیں کہ تم مسیحا ہو ایک مردہ جلا نہیں سکتے اب کہاں وہ دماغ ہے خورشیدؔ اب تو کچھ گنگنا نہیں سکتے

    مزید پڑھیے

    کہا نہ کچھ بھی دبا دی گئی مری آواز

    کہا نہ کچھ بھی دبا دی گئی مری آواز اڑا نہ تھا کہ شکستہ ہوئے پر پرواز عجیب قید میں دم ہے یہ کیسا جینا ہے کہ زندگی ہوئی جاتی ہے موت کی غماز تڑپ تڑپ کے سر دار مر گیا کوئی حیات کہیے کہ مرنے ہی کا ہے اک انداز جگر کا سوز میسر نہیں تو کچھ بھی نہیں جگر کے سوز سے ساز حیات با آواز کوئی ...

    مزید پڑھیے

    آپ آئیں تو کوئی بات بنے

    آپ آئیں تو کوئی بات بنے گل کھلائیں تو کوئی بات بنے زندگی پھر سے گدگدا جائے مسکرائے تو کوئی بات بنے ہم نے مانا کہ آپ آئیں گے آ بھی جائیں تو کوئی بات بنے وصل کی زندگی بھی ہوتی ہے یہ بتائیں تو کوئی بات بنے رنج ہستی کو ہم اگر خورشیدؔ بھول جائیں تو کوئی بات بنے

    مزید پڑھیے

    درد اب حد سے گزر کر لا دوا ہونے کو ہے

    درد اب حد سے گزر کر لا دوا ہونے کو ہے آپ کی الفت میں دیکھیں اور کیا ہونے کو ہے آپ کے ابروئے پر خم کے کرشمے الاماں اک اشارے میں نہ جانے کیا سے کیا ہونے کو ہے بے حیائی دور حاضر کی یہ کہتی ہے مجھے حسن پردے سے نکل کر بد نما ہونے کو ہے تارے ٹکرانے کو ہیں اور زلزلے آنے کو ہیں از زمیں تا ...

    مزید پڑھیے

    جس نے دامن تھاما ہوگا

    جس نے دامن تھاما ہوگا پھول نہیں وہ کانٹا ہوگا پتھر لے کر لوگ آئے ہیں مجھ کو شیشہ سمجھا ہوگا بستی میں اب کس کو ڈھونڈوں قاتل ہی اک تنہا ہوگا دوکانوں پر بھیڑ یہ کیسی خون کسی کا بکتا ہوگا گھر کو آگ لگائی کس نے کوئی نہیں ہمسایہ ہوگا بھیگے بھیگے لفظ ہیں خط میں لکھنے والا رویا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3