کہا نہ کچھ بھی دبا دی گئی مری آواز

کہا نہ کچھ بھی دبا دی گئی مری آواز
اڑا نہ تھا کہ شکستہ ہوئے پر پرواز


عجیب قید میں دم ہے یہ کیسا جینا ہے
کہ زندگی ہوئی جاتی ہے موت کی غماز


تڑپ تڑپ کے سر دار مر گیا کوئی
حیات کہیے کہ مرنے ہی کا ہے اک انداز


جگر کا سوز میسر نہیں تو کچھ بھی نہیں
جگر کے سوز سے ساز حیات با آواز


کوئی صلیب پہ کیا سوچ کے لٹکتا ہے
مسیح وقت سے پوچھے ذرا کوئی یہ راز


فراق یار میں ہر لمحہ زندگی ہے عذاب
دراز سلسلۂ زیست ہے بہت ہی دراز


غم حیات نے شاعر بنا دیا خورشیدؔ
وگرنہ میں کہاں اور شاعری کا یہ اعزاز