Khursheed Alig

خورشید علیگ

خورشید علیگ کی غزل

    کیسے کیسے میرے منظر ہو گئے

    کیسے کیسے میرے منظر ہو گئے اشک آنکھوں میں سمندر ہو گئے زندگی آوارگی تک آ گئی تم سے بچھڑے اور بے گھر ہو گئے کوئی منزل اور نہ قدموں کے نشاں ہم ترے رستے کا پتھر ہو گئے اپنی بربادی کا قصہ مختصر حادثے اپنا مقدر ہو گئے آئنوں کی یہ جسارت دیکھیے میرے قامت کے برابر ہو گئے بڑھ گئی ...

    مزید پڑھیے

    زندگانی کی مسرت بھی جدا ہم سے ہوئی

    زندگانی کی مسرت بھی جدا ہم سے ہوئی جرم یہ تھا کہ نہ تردید خدا ہم سے ہوئی ہم گنہ گار سہی پھر بھی ترے بندے ہیں ہر شب غم میں خدا تیری ثنا ہم سے ہوئی سر اٹھاتے ہوئے چلتے رہے صحراؤں میں کسی حالت میں نہ مجروح انا ہم سے ہوئی کوئی ایسا تھا جو کہتا نہ بروں کو بھی برا بس ترے شہر میں یہ رسم ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کو حرام مت کرنا

    زندگی کو حرام مت کرنا شوق کو بے لگام مت کرنا شہرتیں بھی بری بلائیں ہیں ان کو تم اپنے نام مت کرنا ہو نہ جائے گمان سجدوں کا اتنا جھک کر سلام مت کرنا لوگ تجھ کو سہل سمجھنے لگیں خود کو اتنا بھی عام مت کرنا جن سے رسوائیاں ہو دامن میں بھول کر بھی وہ کام مت کرنا زرپرستوں سے راہ و رسم ...

    مزید پڑھیے

    رشتۂ دل کو میں نے توڑ دیا

    رشتۂ دل کو میں نے توڑ دیا بات کرنا بھی ان سے چھوڑ دیا اب نہ آنسو ہیں اور نہ آہیں ہیں دل کو ان کی طرف سے موڑ دیا ان کے جانے پہ یہ ہوا محسوس روح نے گویا جسم چھوڑ دیا آبلے چلنے میں جو تھے حائل خار صحرا نے ان کو پھوڑ دیا ہے یقیناً وہ قابل توصیف جس نے ٹوٹے دلوں کو جوڑ دیا وقت کا زور ...

    مزید پڑھیے

    حسن معصوم نہیں عشق پہ الزام کے بعد

    حسن معصوم نہیں عشق پہ الزام کے بعد آپ کا نام بھی آتا ہے مرے نام کے بعد ہے یہی عالم معراج محبت شاید اب کوئی نام نہیں لب پہ ترے نام کے بعد اب محبت کی تمہیں لاج تو رکھنی ہوگی لوگ لیتے ہیں ترا نام مرے نام کے بعد نا مرادی سے مرے دل کی خلش کم نہ ہوئی تشنگی اور بڑھی حسرت ناکام کے ...

    مزید پڑھیے

    یہ نہ سمجھو کہ فقط ہے دل کے بہلانے کا نام

    یہ نہ سمجھو کہ فقط ہے دل کے بہلانے کا نام عاشقی ہے عشق میں حد سے گزر جانے کا نام چار دن کی زندگی اپنے لیے کافی نہیں اور کچھ لمحوں پہ لکھ دے اپنے مستانے کا نام غرق کر دے مجھ کو اپنی چاہتوں کی جھیل میں شمع تو ہے تو مٹا دے اپنے پروانے کا نام یوں دبے پاؤں نہ میرے گھر میں آیا ...

    مزید پڑھیے

    چراغ جلتے نہیں ہیں جلائے جاتے ہیں

    چراغ جلتے نہیں ہیں جلائے جاتے ہیں یہ اشک بہتے نہیں ہیں بہائے جاتے ہیں جب ان کی بزم میں پہنچے تو یہ ہوا معلوم یہاں چراغ نہیں دل جلائے جاتے ہیں خزاں کے خوف سے لطف بہار کیوں چھوڑیں یہی تو سوچ کے گل مسکرائے جاتے ہیں شب فراق کی بے تابیاں نہ پوچھ ہمیں کچھ ایسے زخم ہیں جو دل کو کھائے ...

    مزید پڑھیے

    نہ جانے ٹوٹ کے کب سے بکھر رہا ہوں میں

    نہ جانے ٹوٹ کے کب سے بکھر رہا ہوں میں کہ اپنی ذات کا خود ایک سانحہ ہوں میں مرے لہو کی ضرورت ہے تیرے ہاتھوں کو اسی تصور رنگیں سے جی رہا ہوں میں مصیبتیں تو ہیں اپنی شمار سے باہر کہ حادثات میں ہر لحظہ مبتلا ہوں میں نہ جانے کیسا سفر ہے کہ کچھ پتہ ہی نہیں چلا کہاں سے کہاں آ کے رک گیا ...

    مزید پڑھیے

    میں نے جس شخص کی برسوں سے طرف داری کی

    میں نے جس شخص کی برسوں سے طرف داری کی اس نے میرے ہی لیے جنگ کی تیاری کی میرے بارے میں وہ تحقیق کیا کرتا ہے مل گئی مجھ کو سند میری وفاداری کی جن سے ایمان کی تصویر ہے ٹکڑے ٹکڑے گفتگو وہ بھی کیا کرتے ہیں خودداری کی چل دئے جانب منزل کو بہ ہم راہ جنوں ہم نے تو فکر نہ کی راہ کی دشواری ...

    مزید پڑھیے

    بھری محفل میں ضبط غم با آسانی بھی کرتے ہیں

    بھری محفل میں ضبط غم با آسانی بھی کرتے ہیں مگر تنہائی میں اشکوں کی ارزانی بھی کرتے ہیں میاں ہم خاکساری میں جواب اپنا نہیں رکھتے ضرورت آ پڑے تو پھر ہمہ دانی بھی کرتے ہیں انہیں مت دیکھیں اہل دل حقارت کی نگاہوں سے فقیران حرم شہروں پہ سلطانی بھی کرتے ہیں شکایت بے سبب کرتے ہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3