درد کا جام لے کے جیتے ہیں
درد کا جام لے کے جیتے ہیں ضبط سے کام لے کے جیتے ہیں لوگ جیتے ہیں سو بہانوں سے ہم ترا نام لے کے جیتے ہیں
درد کا جام لے کے جیتے ہیں ضبط سے کام لے کے جیتے ہیں لوگ جیتے ہیں سو بہانوں سے ہم ترا نام لے کے جیتے ہیں
تمہاری یاد کے اجڑے ہوئے، اداس چمن نکھر رہے ہیں، مرے درد کی پھوار کے ساتھ میں سوچتا ہوں، کبھی تم بھی لوٹ آؤ گے تمہارا بھی تو تعلق ہے، کچھ بہار کے ساتھ
گلوں کا، نغموں کا، خوابوں کا چاندنی کا سلام کھلی فضاؤں کا، خوشبو کا روشنی کا سلام گلی گلی کا یہ جوگی، نگر نگر کا فقیر تمہارے شہر میں لایا ہے زندگی کا سلام
مری گلی میں یہ آہٹ تھی کس کے قدموں کی یہ کون چاند سے دامن بچا کے گزرا ہے مرے اداس دریچے مجھے بتاتے ہیں بڑے ہی درد سے کوئی بلا کے گزرا ہے
آرزو کے دیئے جلانے سے یہ اندھیرے تو کم نہیں ہوں گے کب زمانے میں غم نہیں تھے دوست کم زمانے میں غم نہیں ہوں گے
اے غم دوست، ہم نے تیرے لئے کتنے ہونٹوں کے جام توڑے ہیں کتنی زلفوں کے سائے ملتے تھے کتنی زلفوں کے سائے چھوڑے ہیں
آسماں کی بلندیوں سے ندیم ایک روشن ستارہ ٹوٹ گیا میرے ہاتھوں سے جام مستقبل فرش ماضی پہ گر کے پھوٹ گیا
ہم فقیروں کی بات کیوں پوچھو روز مرتے ہیں، روز جیتے ہیں اک نیا زخم دن کو ملتا ہے اک نیا زخم شب کو سیتے ہیں
آ کہ بزم طرب سجا لیں ہم آ کہ عشرت کا گیت گا لیں ہم زندگی عمر بھر کا رونا ہے آ کہ پل بھر کو مسکرا لیں ہم
مری جوانی بہاروں میں بھی اداس رہی فضائے درد تمنا کو راس آ نہ سکی خوشی افق پہ کھڑی دیکھتی رہی مجھ کو اسے بلا نہ سکا، خود وہ پاس آ نہ سکی