تم گناہوں سے ڈر کے جیتے ہو
تم گناہوں سے ڈر کے جیتے ہو ہم انہیں ساتھ لے کے چلتے ہیں یہ وہ رہبر ہیں جن کے ہاتھوں سے جنتوں کے چراغ جلتے ہیں
تم گناہوں سے ڈر کے جیتے ہو ہم انہیں ساتھ لے کے چلتے ہیں یہ وہ رہبر ہیں جن کے ہاتھوں سے جنتوں کے چراغ جلتے ہیں
نہ تیرے درد کے تارے ہی اب سلگتے ہیں نہ تیری یاد کی اب چاندنی برستی ہے یہ کیسا وقت، محبت میں تیری آیا ہے مری حیات، ترے غم کو بھی ترستی ہے
تو مرے ساتھ اب نہیں ہے دوست چاندنی کس لئے ترستی ہے جام اب کیوں کھنکتے رہتے ہیں یہ گھٹا کس لئے برستی ہے
تم گھٹاؤں کا اہتمام کرو اذن جام شراب ہم دیں گے تم گناہوں کا لطف تو لے لو حشر کے دن حساب ہم دیں گے
اتنی تلخ فضا میں بھی ہم زندہ ہیں اپنے درد کے سورج سے تابندہ ہیں ڈھلتی رات کے تارے ہیں ہم صحرا میں سچ پوچھو تو خود سے بھی شرمندہ ہیں
زندگی کی حسین شہزادی آرزو کے ستم سے ڈرتی ہے پھر بھی ہر روز اپنے خاکوں میں آرزوؤں کے رنگ بھرتی ہے
سخت جاں بھی ہیں اور نازک بھی درد کے باوجود جیتے ہیں زندگی زہر ہے، مگر ہم لوگ چھان کر گیسوؤں میں پیتے ہیں
بڑی شفیق، بڑی غم شناس لگتی ہیں تمہارے شہر کی گلیاں اداس لگتی ہیں وہ درد مند نگاہیں، جو چھن گئیں مجھ سے کبھی کبھی تو مجھے آس پاس لگتی ہیں
کاوش صبح و شام باقی ہے ایک درد مدام باقی ہے سجدے کرتا ہوں اٹھ کے پچھلے پہر عشق کا احترام باقی ہے
دل جلوں کو ستانے آئے ہیں غم زدوں کو رلانے آئے ہیں اف! یہ بے درد شام کے سائے حسرتوں کو جگانے آئے ہیں