Kahkashan Tabassum

کہکشاں تبسم

  • 1960

کہکشاں تبسم کی نظم

    معذوری

    بہت سی نظمیں کہی تھیں میں نے لکھیں بھی لکھ لکھ کے پھاڑ ڈالیں جو شاید نازک طبع پہ تیری گراں گزرتیں کہ جانتی تھی وہ سارے موسم جو تیرے اندر ہیں آتے جاتے پرکھ چکی تھی میں تیرے دل کی تمام رت کو میں تیری سوچوں سے آشنا تھی اسی لیے تو بہت سی نظمیں کہی تھیں لیکن

    مزید پڑھیے

    نئی ابتدا

    چلو آؤ چلیں چلیں پھر لوٹ کے واپس اسی اندھی گپھا میں ہم جہاں روشن ہوئی تھی آگ پہلے پہل کہ اب کالی ہواؤں سے بچاؤ کا یہی اک راستہ ہے چلو آؤ انہیں غاروں کی جانب پھر چلیں جاناں اور اندر کی برستی بارشوں میں جم کے بھیگیں بھیگتے جائیں ٹھٹھر جائیں ٹھٹھر کر سرد پڑتے جسم و جاں کو ہم اسی پہلے ...

    مزید پڑھیے

    بھاگلپور-5

    صرف ہمارا شہر ہی نہیں جلا جل گئی ہماری ریشمی تہذیب بھی اب ان ہی چنگاریوں سے رہ رہ کر سلگ اٹھتی ہے کومل من میں نفرت کی جوالا

    مزید پڑھیے

    بھاگلپور-۱

    وہ مؤذن تھا ذرا سی دیر کو آ یا تھا اپنے گھر یہ کہنے کو کہ کوئی شور ہو دستک ہو دروازہ نہ کھولوگی دریچے بند رکھو گی ہوائیں شہر کی بدلی ہوئی ہیں یہی تاکید کر کے وہ واپس ہو گیا تھا اور اپنی کوٹھری میں بند اس کی کانپتی بیوی کلیجے سے لگائے ننھے بچوں کو کسی سہمی ہوئی چڑیا کی صورت پر سمیٹے ...

    مزید پڑھیے

    ابھیشاپ

    ہزاروں سال بیتے مری زرخیز دھرتی کے سنگھاسن پر براجے دیوتاؤں کے سراپے سانولے تھے مگر اس وقت بھی کچھ حسن کا معیار اونچا تھا ہمالہ کی حسیں بیٹی انہیں بھائی برندابن کی دھرتی پر تھرکتی ناچتی رادھا بسی تھی کرشن کے دل میں انہیں بھی حسن کی من موہنی مورت پسند آئی مگر ان کو خدا ہوتے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں مٹی ہی رہنے دو

    گڑھو مت چاک پہ رکھ کے کوئی کوزہ صراحی یا گھڑا پیالہ تمہاری سوچ کے یہ نقش ہیں سارے تمہاری خواہشوں کے رنگ بھر دل کش ہمیں مٹی ہی رہنے دو ہمیں کب چاہیے ایسی عطا بخشی ہوئی صورت ہمیں مٹی ہی رہنے دو جو نم بارش سے ہو زرخیز ہو فصلیں اگاتی ہو ذرا سی بیج کو پودا بناتی ہو کہ وہ پودا شجر بن ...

    مزید پڑھیے

    بھاگلپور-۳

    شاکاہاری گوشت مچھلی انڈے نہیں کھاتے کہ بھرشٹ نہ ہو جائے دھرم مگر کھیتوں میں ہماری لاشیں دبا کر سبزیاں اگاتے ہیں ہمارے ہی لہو کی نمی سے کرتے ہیں پٹون شاکاہاری مانساہاری جو نہیں ہوتے

    مزید پڑھیے

    ہمیں خانوں میں مت بانٹو

    ہمیں خانوں میں مت بانٹو کہ ہم تو روشنی ٹھہرے کسی دہلیز پر جلتے ہوئے شب بھر کسی کا راستہ تکتے چراغوں سے بھی آگے ہے جہاں اپنا اجالوں کی کمک لے کر اندھیرے کی صفوں کو چیر جاتے ہیں یہ جگنو چاند اور تارے ہماری صورتیں جیسے ہمیں خانوں میں مت بانٹو ہوا ہیں ہم بھلا دیوار و در میں قید کیا ...

    مزید پڑھیے

    بھاگلپور-۲

    یہ تری شکل ہے کہ چاند کا روشن چہرہ یہ ستارے تری آنکھوں سے دمکتے کیوں ہیں یہ تری شوخ اداؤں سی سنکتی پروا جو مرے سر سے دوپٹے کو گرا دیتی ہے خشک بالوں کو ذرا اور اڑا دیتی ہے یہ تری یاد کے جگنو ہیں کہ شبنم قطرے جس سے بے خواب نگاہوں کی زمیں گیلی ہے کوئی آہٹ نہ ہی دستک کہ گلی سونی ہے گر ...

    مزید پڑھیے

    بھاگلپور-۴

    کوئی سومناتھ کا مندر نہیں تھا اور نہ تلوار والے ہاتھ تھے غوریوں کے مگر لٹ گیا مرا شہر بس نام پر اجودھیا کے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2