ابھیشاپ
ہزاروں سال بیتے
مری زرخیز دھرتی کے سنگھاسن پر
براجے دیوتاؤں کے سراپے سانولے تھے
مگر اس وقت بھی کچھ حسن کا معیار اونچا تھا
ہمالہ کی حسیں بیٹی انہیں بھائی
برندابن کی دھرتی پر
تھرکتی ناچتی رادھا
بسی تھی کرشن کے دل میں
انہیں بھی حسن کی من موہنی مورت پسند آئی
مگر ان کو خدا ہوتے ہوئے بھی یہ خبر کب تھی
کہ ان کی آنے والی نسل پر ان کا سراپا
بہت گہرا اثر ہے چھوڑنے والا
ہزاروں سال بیتے
مگر اب بھی ہماری سانولی رنگت
ترا وردان ہو گویا
ہمارا ہم سفر بھی کسی پارو
کسی رادھا کا اندھا خواب
آنکھوں میں بسائے
لیے کشکول ہاتھوں میں
پھرے بستی کی گلیوں میں
ہم اب کس زعم میں پوجا کی تھالی میں
دئے رکھ کر
تری چوکھٹ پہ آئیں
سر جھکائیں
اتاریں آرتی تیری
ہمارے بخت پر تیرا یہ شیامل رنگ
اک آسیب کی صورت مسلط ہے
ہم اب تو ڈر کے مارے
آئنوں سے منہ چھپائے پھر رہے ہیں