بھاگلپور-۱
وہ مؤذن تھا
ذرا سی دیر کو آ یا تھا اپنے گھر
یہ کہنے کو
کہ کوئی شور ہو دستک ہو
دروازہ نہ کھولوگی
دریچے بند رکھو گی
ہوائیں شہر کی بدلی ہوئی ہیں
یہی تاکید کر کے وہ واپس ہو گیا تھا
اور اپنی کوٹھری میں بند
اس کی کانپتی بیوی
کلیجے سے لگائے ننھے بچوں کو
کسی سہمی ہوئی چڑیا کی صورت
پر سمیٹے دم بخود بیٹھی رہی
نہ جانے رات کے کتنے پہر بیتے
فجر ہونے کو آئی
بشارت بانگ کی صورت
کسی مرغے نے دی تھی صبح ہونے کی
مگر مسجد کے منبر سے
بلا ناغہ بلند ہوتی
موذن کی صدا چپ تھی
اذان صبح غائب تھی