Kahkashan Tabassum

کہکشاں تبسم

  • 1960

کہکشاں تبسم کی نظم

    یہ درد اب کے سوا ہے حد سے

    وہ درد بھی تھا سوا حدوں سے تمہاری آمد کا جس میں مژدہ چھپا ہوا تھا وہ درد رگ رگ کی چیخ بن کر صدا ہوا تھا تو آنکھ خوشیوں سے نم ہوئی تھی زباں سے شکر خدا تھا نکلا زمیں کا ٹکڑا جو زیر پا تھا ہوا تھا جنت کہ اپنی تکمیل پر ہوئی تھی میں سر بہ سجدہ مگر مری جاں وہ خواب موسم گزر چکا ہے ہزار راتوں ...

    مزید پڑھیے

    سلسلے سوالوں کے

    ہزاروں صدیاں گزر چکی ہیں کسی سمے میں وہ تھی ست ونتی کہیں ساوتری کہیں تھی میرا ہر ایک یگ میں عقیدتوں کی لہر میں بھیگی تپسیا کے سحر میں گم سم روایتوں کے نشے میں ڈوبی تمہارے قدموں کی گرد کو وہ تلک بناتی دئے جلاتی تھی نقش پا پر جنم جنم کا اٹوٹ رشتہ نباہے جاتی ہزاروں صدیوں سفر کیا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2