حفیظ شاہد کی غزل

    کوئی نشانیٔ عہد وصال دے جائے

    کوئی نشانیٔ عہد وصال دے جائے وہ میری عمر مرے ماہ و سال دے جائے اسے کہو کہ کسی روز آ کے پھر مجھ کو حسین خواب اچھوتے خیال دے جائے پلٹ کے آئے کبھی اس کی یاد کا موسم گل مراد کو رنگ جمال دے جائے خدا کرے کہ اچانک وہ سامنے آ کر مرے لبوں کو نئے کچھ سوال دے جائے تمام عمر کی خوشیاں سمیٹ کر ...

    مزید پڑھیے

    سر اشجار تحریر ہوا اچھی نہیں لگتی

    سر اشجار تحریر ہوا اچھی نہیں لگتی ہمیں پت جھڑ میں گلشن کی فضا اچھی نہیں لگتی گلی کوچوں پہ یہ کیسا سکوت مرگ طاری ہے فضائے شہر بے صوت و صدا اچھی نہیں لگتی پس تصویر ہو جب ایک رنگ آتش و آہن تری تصویر اے دنیا ذرا اچھی نہیں لگتی وہی ہے بھوک اہل زر کی لیکن لوگ کہتے ہیں بھرا ہو پیٹ تو ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں اہل زمانہ ڈھونڈتے ہیں

    ہمیں اہل زمانہ ڈھونڈتے ہیں کوئی تازہ نشانہ ڈھونڈتے ہیں ابھی تک ہم کوئی عنوان تازہ سر شہر فسانہ ڈھونڈتے ہیں ہماری ہی طرح اٹھ کر سویرے پرندے آب و دانہ ڈھونڈتے ہیں زمیں اب ہو گئی مسکن پرانا نیا کوئی ٹھکانہ ڈھونڈتے ہیں چراغ خون دل ہم تو جلا کر مضامیں کا خزانہ ڈھونڈتے ...

    مزید پڑھیے

    نوچ لیے ہر شاخ سے پتے بوٹا بوٹا لوٹ لیا

    نوچ لیے ہر شاخ سے پتے بوٹا بوٹا لوٹ لیا دست خزاں نے چوری چوری باغ تمنا لوٹ لیا اس کو خود ہی میں نے اپنے شہر کی دولت سونپی تھی کس سے ذکر کروں اب جا کر اس نے کیا کیا لوٹ لیا اور تو کچھ بھی پاس نہیں تھا اک یادوں کی دولت تھی ظالم وقت نے چپکے چپکے یہ بھی اثاثہ لوٹ لیا سوکھ گئی ہیں دھوپ ...

    مزید پڑھیے

    فکر سود و زیاں میں رہتا ہوں

    فکر سود و زیاں میں رہتا ہوں میں بھی اس خاکداں میں رہتا ہوں نیلگوں آسمان کے نیچے خیمۂ جسم و جاں میں رہتا ہوں میں ہوں آزاد کب زمانے میں قید وہم و گماں میں رہتا ہوں میں محبت کی روشنی بن کر وقت کی کہکشاں میں رہتا ہوں میں بہاروں کے رنگ میں ڈھل کر منظر بوستاں میں رہتا ہوں جانے کیا ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی یاد میں لکھا ہے جو کچھ

    کسی کی یاد میں لکھا ہے جو کچھ یہی کچھ ہے مرا اپنا ہے جو کچھ اسی کا عکس ہے لفظوں میں میرے نظر کے سامنے دنیا ہے جو کچھ ضرورت مند ہوں مجھ کو عطا کر سکھی داتا مرا حصہ ہے جو کچھ چرا لے جائے گی باد صبا بھی چھپا کر پھول نے رکھا ہے جو کچھ مقدر ہے اسی کا نام شاید مجھے وہ بے طلب دیتا ہے جو ...

    مزید پڑھیے

    ہوا خاموش پتے سو رہے ہیں

    ہوا خاموش پتے سو رہے ہیں ابھی شاخوں پہ غنچے سو رہے ہیں سر دیوار سورج تپ رہا ہے پس دیوار سائے سو رہے ہیں در دل پر ابھی دستک نہ دینا اندھیرا ہے اجالے سو رہے ہیں ہوائے تند تو بھی جا کے سو جا درختوں پر پرندے سو رہے ہیں کھلی ہیں شب کے دروازوں کی آنکھیں مگر گھر کے دریچے سو رہے ...

    مزید پڑھیے

    جادۂ راستی ہی کافی ہے

    جادۂ راستی ہی کافی ہے مجھ کو یہ روشنی ہی کافی ہے اس جہاں میں گزارنے کے لیے مختصر زندگی ہی کافی ہے تجھ کو فرزانگی مبارک ہو مجھ کو دیوانگی ہی کافی ہے کیا ضرورت ہے دشمنوں کی مجھے آپ کی دوستی ہی کافی ہے کیا کروں گا میں سیم و زر لے کر دولت بے خودی ہی کافی ہے دل کے آنگن میں روشنی کے ...

    مزید پڑھیے

    جھکا سکے نہ مجھے حادثے محبت کے

    جھکا سکے نہ مجھے حادثے محبت کے وہی ہوں میں تو وہی سلسلے محبت کے یہ اور بات کہ تم ہی نے امتحاں نہ لیا سبق تو یاد تھے سارے مجھے محبت کے تلاش کر انہیں اہرام مصر کی صورت ہیں دشت دل میں کئی مقبرے محبت کے بتاؤں میں تجھے انجام آرزو کیسے بنا رہا ہوں ابھی زائچے محبت کے ہوا یہ کیسی چلی ...

    مزید پڑھیے

    اک قبیلے سے ہیں لیکن رنگ و نقشہ اور ہے

    اک قبیلے سے ہیں لیکن رنگ و نقشہ اور ہے اور ہے کانٹوں کی دنیا گل کی دنیا اور ہے اشتراک فکر ہو کیسے ہمارے درمیاں تیری خواہش اور ہے میری تمنا اور ہے اور ہی منظر ہے دنیا کا سر طور نظر چشم دل کے سامنے لیکن تماشا اور ہے آرزو کے بحر و دریا کی کہانی کیا کہوں اس کا ساحل اور ہے اس کا کنارا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4