کوئی نشانیٔ عہد وصال دے جائے
کوئی نشانیٔ عہد وصال دے جائے وہ میری عمر مرے ماہ و سال دے جائے اسے کہو کہ کسی روز آ کے پھر مجھ کو حسین خواب اچھوتے خیال دے جائے پلٹ کے آئے کبھی اس کی یاد کا موسم گل مراد کو رنگ جمال دے جائے خدا کرے کہ اچانک وہ سامنے آ کر مرے لبوں کو نئے کچھ سوال دے جائے تمام عمر کی خوشیاں سمیٹ کر ...