اک قبیلے سے ہیں لیکن رنگ و نقشہ اور ہے
اک قبیلے سے ہیں لیکن رنگ و نقشہ اور ہے
اور ہے کانٹوں کی دنیا گل کی دنیا اور ہے
اشتراک فکر ہو کیسے ہمارے درمیاں
تیری خواہش اور ہے میری تمنا اور ہے
اور ہی منظر ہے دنیا کا سر طور نظر
چشم دل کے سامنے لیکن تماشا اور ہے
آرزو کے بحر و دریا کی کہانی کیا کہوں
اس کا ساحل اور ہے اس کا کنارا اور ہے
دیکھنا طوفان میں گھر کر نہ رہ جائے کہیں
ناخدا یہ آرزؤں کا سفینہ اور ہے
اب بدلنا ہی پڑے گا یہ طریق زندگی
اب مری جاں صورت حالات دنیا اور ہے
دشمنوں کا ہاتھ اس میں ہے نہ یاروں کا قصور
انقطاع دوستی کا شاخسانہ اور ہے
زندگی کے موڑ پر شاہدؔ ملیں پھر کس طرح
اس کا رستہ مختلف ہے میرا رستہ اور ہے