جادۂ راستی ہی کافی ہے

جادۂ راستی ہی کافی ہے
مجھ کو یہ روشنی ہی کافی ہے


اس جہاں میں گزارنے کے لیے
مختصر زندگی ہی کافی ہے


تجھ کو فرزانگی مبارک ہو
مجھ کو دیوانگی ہی کافی ہے


کیا ضرورت ہے دشمنوں کی مجھے
آپ کی دوستی ہی کافی ہے


کیا کروں گا میں سیم و زر لے کر
دولت بے خودی ہی کافی ہے


دل کے آنگن میں روشنی کے لیے
فکر کی تازگی ہی کافی ہے


اس چمن میں خزاں نصیبوں کو
اک کلی ادھ کھلی ہی کافی ہے


لشکر غم سے جیتنے کے لیے
چند روزہ خوشی ہی کافی ہے


آرزو کے نہال کو شاہدؔ
آنسوؤں کی نمی ہی کافی ہے