نوچ لیے ہر شاخ سے پتے بوٹا بوٹا لوٹ لیا
نوچ لیے ہر شاخ سے پتے بوٹا بوٹا لوٹ لیا
دست خزاں نے چوری چوری باغ تمنا لوٹ لیا
اس کو خود ہی میں نے اپنے شہر کی دولت سونپی تھی
کس سے ذکر کروں اب جا کر اس نے کیا کیا لوٹ لیا
اور تو کچھ بھی پاس نہیں تھا اک یادوں کی دولت تھی
ظالم وقت نے چپکے چپکے یہ بھی اثاثہ لوٹ لیا
سوکھ گئی ہیں دھوپ میں شاخیں امیدوں ارمانوں کی
موسم غم نے دل کے شجر کا پتا پتا لوٹ لیا
اپنے دل کے ارمانوں کا میلہ ایک لگایا تھا
اس نے اپنی چھب دکھلا کر سارا میلہ لوٹ لیا
ہر سو بام و در پر چھائے درد و یاس کے سائے ہیں
کس ظالم نے اس نگری کا قریہ قریہ لوٹ لیا
تجھ کو بھی تھا شاہدؔ ناداں اپنے دل پر ناز بہت
اس نے چور بن کے آخر رفتہ رفتہ لوٹ لیا