حفیظ شاہد کی غزل

    تبدیلیوں کی راہ پہ چلنے تو دے مجھے

    تبدیلیوں کی راہ پہ چلنے تو دے مجھے خود کو بدل رہا ہوں بدلنے تو دے مجھے بچہ نہیں ہوں میں جو بھٹک جاؤں گا کہیں تنہا رہ حیات میں چلنے تو دے مجھے جلتا ہوا چراغ اگر ہے مرا وجود پھر اپنے دل کے طاق میں جلنے تو دے مجھے گر میری دسترس میں نہیں آسماں کا چاند مہتاب صورتوں سے بہلنے تو دے ...

    مزید پڑھیے

    پڑھ رہا ہوں نصاب ہو جیسے

    پڑھ رہا ہوں نصاب ہو جیسے اس کا چہرہ کتاب ہو جیسے یوں بسر کر رہا ہوں دنیا میں زندگانی عذاب ہو جیسے شاخ قامت پہ وہ حسیں چہرہ ایک تازہ گلاب ہو جیسے یوں وہ رہتا ہے میری آنکھوں میں میری آنکھوں کا خواب ہو جیسے وہ مرے بخت کے خزینے میں گوہر لا جواب ہو جیسے اس کی ہستی کتاب ہستی کا اک ...

    مزید پڑھیے

    کٹھن حالات میں اپنے ارادوں کو جواں رکھنا

    کٹھن حالات میں اپنے ارادوں کو جواں رکھنا ہمیں آتا ہے دل میں شعلۂ غم کو نہاں رکھنا اکیلے گھر میں کیسے وقت کاٹو گے تن تنہا کوئی تصویر لٹکا کر سر دیوار جاں رکھنا ہماری فکر تم چھوڑو ہمیں یہ کام آتا ہے اندھیروں میں بسر کرنا نظر میں کہکشاں رکھنا اجل اور زندگی کی دوستی اک حرف باطل ...

    مزید پڑھیے

    یہ رنگ ترے شہر کے صحرا میں کہاں ہیں

    یہ رنگ ترے شہر کے صحرا میں کہاں ہیں گلیاں ہیں نہ کوچے ہیں مکیں ہیں نہ مکاں ہیں آنکھوں میں چھپا رکھے ہیں اشکوں کے خزینے ہم غم کی عنایات سے محروم کہاں ہیں جھلکیں گے کسی روز یہی لفظ و بیاں میں آئینۂ احساس میں جو عکس نہاں ہیں رکھتے ہیں جو مختاریٔ انساں کی تمنا مجبوریٔ انساں پہ ...

    مزید پڑھیے

    کب کا گزر چکا ہے وہ موسم شباب کا

    کب کا گزر چکا ہے وہ موسم شباب کا اب ذکر ہے فضول وفا کی کتاب کا فرصت ملے تو دیکھ ذرا دل کا آئنہ اس میں ہے عکس تیرے گناہ و ثواب کا چپ چاپ حال اہل نظر دیکھتے رہو ہے کس کے پاس وقت سوال و جواب کا ہر شخص گھر گیا ہے نئے اضطراب میں توڑا ہے جس نے قفل در اضطراب کا رکھتا ہے تیرے روئے حسیں سے ...

    مزید پڑھیے

    کیوں قتل کے ارمان میں آزار اٹھائیں

    کیوں قتل کے ارمان میں آزار اٹھائیں گردن مری حاضر ہے وہ تلوار اٹھائیں روکے سے مری طبع رواں رک نہ سکے گی رستے میں مرے لاکھ وہ دیوار اٹھائیں جو دل میں تمہارے ہے بتا کیوں نہیں دیتے صدمہ جو اٹھانا ہے تو یکبار اٹھائیں کیوں لوگ ہیں خاموش زبوں حال پہ اپنے آواز سر کوچہ و بازار ...

    مزید پڑھیے

    چھپی دل میں جو یاد یار ہوگی

    چھپی دل میں جو یاد یار ہوگی مسافت اور بھی دشوار ہوگی خبر کیا تھی کہ حائل راستے میں پس دیوار بھی دیوار ہوگی گلہ انکار کا اس سے کروں کیا کوئی تو صورت انکار ہوگی اسے جب ماننا کچھ بھی نہیں ہے دلالت بھی مری بیکار ہوگی مجھے معلوم ہی کب تھا یہ پہلے خرد خود ہی جنوں آثار ہوگی سر محفل ...

    مزید پڑھیے

    وہ مجھ میں تھا نہاں میں دیکھتا کیا

    وہ مجھ میں تھا نہاں میں دیکھتا کیا پس دیوار جاں میں دیکھتا کیا کتاب زندگی زیر نظر تھی حدیث دلبراں میں دیکھتا کیا مجھے چلنا تھا اپنے راستے پر نشان رفتگاں میں دیکھتا کیا نظر میں تھا وہ مہتاب تمنا جمال کہکشاں میں دیکھتا کیا فنا کی زد پہ تھا بازار دنیا یہاں سود و زیاں میں دیکھتا ...

    مزید پڑھیے

    آتے ہیں پہلے لب پہ سوالات خود بخود

    آتے ہیں پہلے لب پہ سوالات خود بخود پھر ہم کو سوجھتے ہیں جوابات خود بخود سوچوں میں اپنے آپ اترتی ہے روشنی جلتی ہے دل میں مشعل جذبات خود بخود جب تک نہ لیں گے فہم و فراست سے کام ہم بدلے گی کیسے صورت حالات خود بخود قصر تصورات میں جب سے مقیم ہیں ہوتی ہے روز ان سے ملاقات ...

    مزید پڑھیے

    دل کا ہر ایک داغ چراغاں سے کم نہیں

    دل کا ہر ایک داغ چراغاں سے کم نہیں میری خزاں بھی فصل بہاراں سے کم نہیں اس میں ہے خون دل کا سمندر چھپا ہوا آنکھوں میں ایک اشک بھی طوفاں سے کم نہیں یادوں میں ہیں گلاب سے چہرے سجے ہوئے شہر خیال کوچۂ جاناں سے کم نہیں ہے خاک پر نشست فلک پر اڑان ہے میری زمیں بھی تخت سلیماں سے کم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4