کوئی نشانیٔ عہد وصال دے جائے
کوئی نشانیٔ عہد وصال دے جائے
وہ میری عمر مرے ماہ و سال دے جائے
اسے کہو کہ کسی روز آ کے پھر مجھ کو
حسین خواب اچھوتے خیال دے جائے
پلٹ کے آئے کبھی اس کی یاد کا موسم
گل مراد کو رنگ جمال دے جائے
خدا کرے کہ اچانک وہ سامنے آ کر
مرے لبوں کو نئے کچھ سوال دے جائے
تمام عمر کی خوشیاں سمیٹ کر میری
تمام عمر کے اپنے ملال دے جائے
کوئی تو ہو جو مرے چارہ گر سے جا کے کہے
دوا کبھی تو مرے حسب حال دے جائے
اگر نہیں ہے مداوا زوال کا شاہدؔ
وہ حوصلہ تو بوقت زوال دے جائے