کسی کی یاد میں لکھا ہے جو کچھ
کسی کی یاد میں لکھا ہے جو کچھ
یہی کچھ ہے مرا اپنا ہے جو کچھ
اسی کا عکس ہے لفظوں میں میرے
نظر کے سامنے دنیا ہے جو کچھ
ضرورت مند ہوں مجھ کو عطا کر
سکھی داتا مرا حصہ ہے جو کچھ
چرا لے جائے گی باد صبا بھی
چھپا کر پھول نے رکھا ہے جو کچھ
مقدر ہے اسی کا نام شاید
مجھے وہ بے طلب دیتا ہے جو کچھ
بتا دیں گی ہوائیں ہر کسی کو
لب اشجار پر قصہ ہے جو کچھ
مہ و خورشید تو کچھ بھی نہیں ہیں
مری مٹی کا اک ذرہ ہے جو کچھ
کسی دن وہ بھی لے جائے گا کوئی
سر بازار جاں سودا ہے جو کچھ
کہاں تک میں تجسس میں رہوں گا
اٹھا دو درمیاں پردہ ہے جو کچھ
نہیں سوجھا جو اب اس کا ابھی تک
کسی کی آنکھ نے پوچھا ہے جو کچھ
نہیں کچھ اور پانے کی تمنا
غنیمت ہے یہاں پایا ہے جو کچھ
اسے تحریر کرتا جا رہا ہوں
مری سوچوں کا افسانہ ہے جو کچھ
بھنور ہوں یا خس و خاشاک شاہدؔ
ہمارا ہے سر دریا ہے جو کچھ