فکر سود و زیاں میں رہتا ہوں
فکر سود و زیاں میں رہتا ہوں
میں بھی اس خاکداں میں رہتا ہوں
نیلگوں آسمان کے نیچے
خیمۂ جسم و جاں میں رہتا ہوں
میں ہوں آزاد کب زمانے میں
قید وہم و گماں میں رہتا ہوں
میں محبت کی روشنی بن کر
وقت کی کہکشاں میں رہتا ہوں
میں بہاروں کے رنگ میں ڈھل کر
منظر بوستاں میں رہتا ہوں
جانے کیا بات ہے کہ میں تنہا
محفل دوستاں میں رہتا ہوں
اپنے بوڑھے وجود کے اندر
اک شکستہ مکاں میں رہتا ہوں
فکر اتلاف زندگی کیسا
میں اجل کی اماں میں رہتا ہوں
میں بگولوں کے درمیاں شاہدؔ
دشت عصر رواں میں رہتا ہوں