حفیظ شاہد کی غزل

    حالات پر نگاہ رتوں پر نظر نہ تھی

    حالات پر نگاہ رتوں پر نظر نہ تھی جب تک رہے چمن میں چمن کی خبر نہ تھی خود اپنے گھر کو آگ دکھائی تھی آپ نے اس میں تو کوئی سازش برق و شرر نہ تھی روداد تیرہ بختیٔ احباب کیا کہیں ان کے لئے سحر بھی طلوع سحر نہ تھی فصل بہار میں تر و تازہ نہیں ہوا شاید شجر کو خواہش برگ و ثمر نہ تھی ٹوٹی ...

    مزید پڑھیے

    رہو گے ہم سے کب تک بے خبر سے

    رہو گے ہم سے کب تک بے خبر سے جدا ہوتی نہیں دیوار در سے مسافر حال کیا اپنا سنائے ابھی لوٹا نہیں اپنے سفر سے ہمیشہ تو نہیں رہتا ہے قائم تعلق راہرو کا رہ گزر سے مکانوں سے مکیں رخصت ہوئے ہیں اداسی جھانکتی ہے بام و در سے ابھی تک ہوں سفر میں ارتقا کے مجھے لگتے تھے رستے مختصر سے اسی ...

    مزید پڑھیے

    اب کیا کہیں جو موسم گلشن کا حال ہے

    اب کیا کہیں جو موسم گلشن کا حال ہے پھولوں سے رابطہ نہ صبا کا خیال ہے ہر آرزو کی آنکھ میں آنسو لہو کے ہیں کس کا یہ دل کے شہر میں یوم وصال ہے مجھ کو کیا تھا قیدیٔ تقدیر کس لیے قدرت سے انتظار جواب و سوال ہے جذبوں کی انجمن میں اسی کی ہے روشنی گلہائے آرزو میں اسی کا جمال ہے جو بخل سے ...

    مزید پڑھیے

    عجب بگڑے مقدر بن گئے ہیں

    عجب بگڑے مقدر بن گئے ہیں جو دریا تھے سمندر بن گئے ہیں زمیں سے اڑ کے ذرے آسماں پر مہ و پروین و اختر بن گئے ہیں سر لوح تصور کیسے کیسے ادھورے نقش پیکر بن گئے ہیں ہمیں بخشی ہے نرمی موسموں نے مگر کچھ لوگ پتھر بن گئے ہیں ملا ہے یوں ہمیں غم کا خزانہ ہمارے اشک گوہر بن گئے ہیں شب غم ...

    مزید پڑھیے

    ہر سمت زندگی کا تماشا بھی خوب ہے

    ہر سمت زندگی کا تماشا بھی خوب ہے دنیا بھی خوب رونق دنیا بھی خوب ہے جس شہر میں کسی کو کسی کی خبر نہیں اس شہر لا جواب میں جینا بھی خوب ہے میخانۂ حیات کا احوال کیا لکھوں ساقی بھی خوب ساغر صہبا بھی خوب ہے پی کر شراب گم میں رہوں اپنے ہوش میں اے زندگی یہ تیرا تقاضا بھی خوب ہے دیکھا ہے ...

    مزید پڑھیے

    آج بھی مشکلات کم تو نہیں

    آج بھی مشکلات کم تو نہیں بارش حادثات کم تو نہیں ایک سورج غروب ہونے سے رونق کائنات کم تو نہیں کیوں شکایت ہے موسم گل سے شاخ پر پھول پات کم تو نہیں عمر بھر کی رفاقتوں کے بعد ہجر کی ایک رات کم تو نہیں اس کی مرضی سے چار دن جینا اس قدر بھی حیات کم تو نہیں میں تری ذات ہی کا حصہ ہوں مجھ ...

    مزید پڑھیے

    دو چار گام پاس رفاقت نہ کر سکے

    دو چار گام پاس رفاقت نہ کر سکے ہم پھر بھی ان سے کوئی شکایت نہ کر سکے کیا ایسے ہم سفر پہ بھروسہ کرے کوئی جو دل کو بھی شریک مسافت نہ کر سکے انساں کا احترام تھا اتنا ہمیں عزیز ہم اپنے دشمنوں سے بھی نفرت نہ کر سکے ہم لوگ تو کچھ ایسے قدامت پرست ہیں پیدا کسی بھی کام میں جدت نہ کر ...

    مزید پڑھیے

    اس شہر میں نشانۂ قاتل ہمی تو ہیں

    اس شہر میں نشانۂ قاتل ہمی تو ہیں کچھ جابروں کی راہ میں حائل ہمی تو ہیں جو بیچنے چلے ہیں متاع بہار کو ان دشمنوں کے مد مقابل ہمی تو ہیں گلکاریٔ چمن میں ہمارا لہو بھی ہے رنگینیٔ بہار میں شامل ہمی تو ہیں جو دولت ہنر کے طلب گار ہیں ابھی اے رب حرف و صوت وسائل ہمی تو ہیں جو کھو گئے ...

    مزید پڑھیے

    پہلے تو شہر بھر میں اندھیرا کیا گیا

    پہلے تو شہر بھر میں اندھیرا کیا گیا پھر ہم سے روشنی کا تقاضا کیا گیا پہلے تو سازشوں سے ہمیں دی گئی شکست پھر خوب اس شکست کا چرچا کیا گیا اک شخص کے لیے مری بستی کا راستہ کچے مکاں گرا کے کشادہ کیا گیا پہلے تو مجھ کو راہ بتائی گئی غلط پھر میری گمرہی کا تماشا کیا گیا دنیا نہ تھی جو ...

    مزید پڑھیے

    ہر شخص یہاں مجھ کو بیمار سا لگتا ہے

    ہر شخص یہاں مجھ کو بیمار سا لگتا ہے اس شہر میں اب جینا آزار سا لگتا ہے سوچوں کی دکانیں ہیں یادوں کے کھلونے ہیں سینے میں مرے کوئی بازار سا لگتا ہے دیکھا تمہیں جب سے احساس کے آنگن میں ہر جذبۂ خوابیدہ بیدار سا لگتا ہے اب راہ محبت میں چلنا ہے بہت مشکل اس راہ کا ہر پتھر کہسار سا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4