جھکا سکے نہ مجھے حادثے محبت کے
جھکا سکے نہ مجھے حادثے محبت کے
وہی ہوں میں تو وہی سلسلے محبت کے
یہ اور بات کہ تم ہی نے امتحاں نہ لیا
سبق تو یاد تھے سارے مجھے محبت کے
تلاش کر انہیں اہرام مصر کی صورت
ہیں دشت دل میں کئی مقبرے محبت کے
بتاؤں میں تجھے انجام آرزو کیسے
بنا رہا ہوں ابھی زائچے محبت کے
ہوا یہ کیسی چلی ہے سر دیار وفا
بجھے بجھے ہیں دلوں میں دیے محبت کے
نہ جانے کیسے مراحل ہیں اس جگہ درپیش
رکے ہوئے ہیں جہاں قافلے محبت کے
رہ وفا میں قدم دیکھ بھال کر رکھنا
کچھ اتنے سہل نہیں راستے محبت کے
کشاکش غم دنیا سے کس کو فرصت ہے
کروں میں کس سے یہاں مشورے محبت کے
ذرا سا بھی مجھے خوف خزاں نہیں شاہدؔ
مہک رہے ہیں ابھی گل کدے محبت کے