حفیظ شاہد کی غزل

    بنا دیکھے تجھے اپنا بنا کر دیکھ لیتا ہوں

    بنا دیکھے تجھے اپنا بنا کر دیکھ لیتا ہوں میں تیرے آستاں پر سر جھکا کر دیکھ لیتا ہوں سنا ہے راز چاہت کا چھپانا سخت مشکل ہے تری تصویر آنکھوں میں چھپا کر دیکھ لیتا ہوں اندھیرے دل کی بستی کے بھی شاید دور ہو جائیں میں تیرے نام کی مشعل جلا کر دیکھ لیتا ہوں شکایت دوستوں کی ہے مرے ...

    مزید پڑھیے

    تسلیم مجھ کو میں ترے پاسنگ تو نہیں

    تسلیم مجھ کو میں ترے پاسنگ تو نہیں لیکن تجھے نصیب مرا رنگ تو نہیں میں کس لیے فصیل بدن میں چھپا رہوں میری کسی کے ساتھ کوئی جنگ تو نہیں گھبرا رہے ہو کیوں مری بستی کا فاصلہ ہے چند گام سینکڑوں فرسنگ تو نہیں بھرتے ہو کس لیے مری تصویر میں یہ رنگ موج شفق کا رنگ مرا رنگ تو نہیں بے ...

    مزید پڑھیے

    وہ ہم سے ہو گیا ہے بے خبر کچھ

    وہ ہم سے ہو گیا ہے بے خبر کچھ بدلتے موسموں کا ہے اثر کچھ کہیں سائے میں رک کر کیا کریں گے چلو اب تیز باقی ہے سفر کچھ ہوائے تند کا یہ کام دیکھو نہ چھوڑا شاخ پر باقی ثمر کچھ بھٹکتے پھر رہے ہیں راستوں میں بصارت سے تہی اہل نظر کچھ اگرچہ شہر تو اپنا ہے لیکن پرائے سے ہیں کیوں دیوار و ...

    مزید پڑھیے

    بے ارادہ کوچۂ قاتل میں جانا پڑ گیا

    بے ارادہ کوچۂ قاتل میں جانا پڑ گیا پھر ہمیں اپنا مقدر آزمانا پڑ گیا کیا کرو گے جب کبھی شہر تمنا میں تمہیں ہم سے بے آباد لوگوں کو بسانا پڑ گیا اپنے بگڑے خال و خد کو آئنے میں دیکھ کر آئنہ اک آئینہ گر کو دکھانا پڑ گیا دیکھ کر اس کا رویہ خود بجھایا تھا جسے وہ چراغ آرزو پھر سے جلانا ...

    مزید پڑھیے

    یہ پیکر جمال تو عتاب کے لئے نہیں

    یہ پیکر جمال تو عتاب کے لئے نہیں مرے خدا یہ آدمی عذاب کے لئے نہیں تجھے ہے شوق بندگی بہشت کے خیال سے مگر مری عبادتیں ثواب کے لئے نہیں یہ مجھ سے احتراز کیوں یہ مجھ سے اجتناب کیوں سوال تجھ سے ہے مگر جواب کے لئے نہیں جناب کیوں اداس ہیں جناب کیوں ملول ہیں یہ غم تو ہیں مرے لئے جناب کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4