Farooq Engineer

فاروق انجینئر

  • 1960

فاروق انجینئر کی غزل

    نہ جانے کس نے کہا تھا بھٹکتے آہو سے

    نہ جانے کس نے کہا تھا بھٹکتے آہو سے مہک رہا ہے یہ جنگل تری ہی خوشبو سے جھلس رہا تھا کئی دن سے آنکھ کا صحرا یہ دشت ہو گیا سیراب ایک آنسو سے وہ ہجر تھا کہ اندھیرا سا چھا گیا دل میں وہ یاد تھی کہ چمکنے لگے تھے جگنو سے مرے لیے تو وہ دیوان میرؔ جیسا تھا ہوا تھا نم کبھی کاغذ جو پہلے ...

    مزید پڑھیے

    آسماں پر بنے تھے چہرے سے

    آسماں پر بنے تھے چہرے سے لوگ یاد آئے بھولے بسرے سے کتنے سورج زمین میں سوئے نور پھوٹے گا ذرے ذرے سے آنکھ میں آ گیا ہے اک آنسو دشت سیراب ایک قطرے سے سبز موسم ہے صحن میں لیکن زرد رت جھانکتی ہے کمرے سے عمر کتنی بھی ہو مگر شہرت باز آتی کہاں ہے نخرے سے غم بھی درویش ہو گیا فاروقؔ کم ...

    مزید پڑھیے

    شکر ہم نے نہ کچھ شکایت کی

    شکر ہم نے نہ کچھ شکایت کی بات ہے اپنی اپنی خصلت کی ایسا ہموار راستہ کب تھا کیا ضرورت تھی اتنی عجلت کی کہتی رہتی ہے بوڑھی گمنامی کتنی چھوٹی تھی عمر شہرت کی یاس امید غم خوشی خواہش گھر میں ہر چیز ہے ضرورت کی ہیں مقدر عذاب کے موسم کوئی رت ہو نصیب راحت کی دن ڈھلے ہوگا جشن ...

    مزید پڑھیے

    انگلی فگار کوئی نہ خوں میں قلم ہوا

    انگلی فگار کوئی نہ خوں میں قلم ہوا کب ہم سے اپنے درد کا قصہ رقم ہوا روئے تمام عمر مگر اس ہنر کے ساتھ آنسو پلک پہ آیا نہ کاغذ ہی نم ہوا گھر چھوڑ آئے آپ بھی اچھا کیا حضور یہ تو جنوں کی راہ میں پہلا قدم ہوا رہ رہ کے سر اٹھاتی رہیں کتنی خواہشیں ان باغیوں میں سر بھی کسی کا قلم ...

    مزید پڑھیے

    بات میں کچھ مگر بیان میں کچھ

    بات میں کچھ مگر بیان میں کچھ رنگ بدلا ہر ایک آن میں کچھ یوں ہی قائم نہیں ہے یہ دنیا لوگ اچھے ہیں اس جہان میں کچھ مرثیہ ہو گیا چراغوں کا جب بھی لکھا ہوا کی شان میں کچھ قتل ہونے ہیں سب کے سب کردار موڑ ایسے ہیں داستان میں کچھ اس کو دیکھا ملی پلک سے پلک جان سی آ گئی ہے جان میں ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ بارش ہوا کمر بستہ

    دھوپ بارش ہوا کمر بستہ اور دریچے میں ایک گلدستہ پیڑ سے پیڑ کٹ گیا ورنہ کیا کلہاڑی اگر نہ ہو دستہ غم سے ایسے نڈھال ہوں جیسے ایک بچے کی پیٹھ پر بستہ بارشوں کی دعائیں مانگی ہیں اور دیوار گھر کی ہے خستہ ایک جگنو تھا آس کی صورت بھر گیا روشنی سے سب رستہ باندھ رکھا ہے کب سے رخت ...

    مزید پڑھیے

    درخت اب کس کا رستہ دیکھتے ہیں

    درخت اب کس کا رستہ دیکھتے ہیں مسافر منزلوں کے ہو گئے ہیں خدا جانے ہوئی ہے بات کیسی مخالف سب کے سب اپنے ہوئے ہیں وہاں تو عشق ہے اک کھیل گویا یہاں تو جان کے لالے پڑے ہیں کہیں گونجا ہے کوئی قہقہہ کیا فضاؤں میں بھنور سے پڑ رہے ہیں اسی دنیا میں ہیں کتنی ہی دنیا سبھی کے اپنے اپنے ...

    مزید پڑھیے

    کیا جانے کس لیے وہ اتنا بدل رہا ہے

    کیا جانے کس لیے وہ اتنا بدل رہا ہے پھولوں کا جسم لیکن کانٹوں پہ چل رہا ہے گر ہو ترا اشارہ سیراب ہو یہ صحرا پلکوں پہ ایک آنسو کب سے مچل رہا ہے کیا پیاس کی تھی شدت دیکھا ہے سب نے اب تک تپتی ہوئی زمیں سے چشمہ ابل رہا ہے خود کو بچائیں کیا اب اس کی کریں حفاظت بستی سلگ رہی ہے جنگل بھی ...

    مزید پڑھیے

    صبح کا دھوکا ہوا ہے شام پر

    صبح کا دھوکا ہوا ہے شام پر چاند کو دیکھا اچانک بام پر جز مرے سورج پرندے آدمی سب نکل جاتے ہیں اپنے کام پر باریابی کے لیے جائیں مگر دل ٹھٹھک جاتا ہے پہلے گام پر پر لگے خوشبو کو تیرے ذکر سے مسکرائے پھول تیرے نام پر بے ضرورت گھر سے نکلیں اور پھر شے خریدیں کوئی مہنگے دام پر خامشی ...

    مزید پڑھیے

    پریشاں بھی کرے گی گل کھلا کے

    پریشاں بھی کرے گی گل کھلا کے تماشے دیکھتے رہنا ہوا کے یہیں جنت یہیں گویا جہنم تو ہی اب سوچ اے بندے خدا کے بلاتے وہ اگر تو کیا نہ جاتے گرفتہ یوں بھی کب تھے ہم انا کے گلوں پر کانپتے شبنم کے قطرے لرزتے حرف ہونٹوں پر دعا کے ہوس کی آگ نے جھلسا دیا ہے ہمیں چلنا تھا کچھ دامن بچا کے ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3