آسماں پر بنے تھے چہرے سے

آسماں پر بنے تھے چہرے سے
لوگ یاد آئے بھولے بسرے سے


کتنے سورج زمین میں سوئے
نور پھوٹے گا ذرے ذرے سے


آنکھ میں آ گیا ہے اک آنسو
دشت سیراب ایک قطرے سے


سبز موسم ہے صحن میں لیکن
زرد رت جھانکتی ہے کمرے سے


عمر کتنی بھی ہو مگر شہرت
باز آتی کہاں ہے نخرے سے


غم بھی درویش ہو گیا فاروقؔ
کم نکلتا ہے اپنے حجرے سے