کیا جانے کس لیے وہ اتنا بدل رہا ہے
کیا جانے کس لیے وہ اتنا بدل رہا ہے
پھولوں کا جسم لیکن کانٹوں پہ چل رہا ہے
گر ہو ترا اشارہ سیراب ہو یہ صحرا
پلکوں پہ ایک آنسو کب سے مچل رہا ہے
کیا پیاس کی تھی شدت دیکھا ہے سب نے اب تک
تپتی ہوئی زمیں سے چشمہ ابل رہا ہے
خود کو بچائیں کیا اب اس کی کریں حفاظت
بستی سلگ رہی ہے جنگل بھی جل رہا ہے
چہرہ وہ آنکھ میں ہے دل کا قرار فاروقؔ
پانی میں چاند اترا بچہ بہل رہا ہے