پریشاں بھی کرے گی گل کھلا کے
پریشاں بھی کرے گی گل کھلا کے
تماشے دیکھتے رہنا ہوا کے
یہیں جنت یہیں گویا جہنم
تو ہی اب سوچ اے بندے خدا کے
بلاتے وہ اگر تو کیا نہ جاتے
گرفتہ یوں بھی کب تھے ہم انا کے
گلوں پر کانپتے شبنم کے قطرے
لرزتے حرف ہونٹوں پر دعا کے
ہوس کی آگ نے جھلسا دیا ہے
ہمیں چلنا تھا کچھ دامن بچا کے
ہے کس کے لمس کی خوشبو گلوں میں
دھنک میں رنگ ہیں کس کی ادا کے
ٹھہرتے ہیں ذرا پلکوں پہ آنسو
ستارے ٹوٹتے ہیں جھلملا کے
کوئی پردے کے پیچھے بولتا تھا
مگر ہم خوش ہوئے تھے لب ہلا کے
ہماری جان پر بن آئی لیکن
کہاں ہے مطمئن وہ آزما کے
کبھی کھل کر میاں فاروقؔ ہنس دو
یہ کیا رہ جاتے ہو تم مسکرا کے