صبح کا دھوکا ہوا ہے شام پر
صبح کا دھوکا ہوا ہے شام پر
چاند کو دیکھا اچانک بام پر
جز مرے سورج پرندے آدمی
سب نکل جاتے ہیں اپنے کام پر
باریابی کے لیے جائیں مگر
دل ٹھٹھک جاتا ہے پہلے گام پر
پر لگے خوشبو کو تیرے ذکر سے
مسکرائے پھول تیرے نام پر
بے ضرورت گھر سے نکلیں اور پھر
شے خریدیں کوئی مہنگے دام پر
خامشی اچھی ہے لیکن اس قدر
کچھ تو بولیں آپ اس کہرام پر
اے جنوں یہ جی میں آتا ہے کبھی
وقف کر دیں خود کو تیرے نام پر
آنکھ میں فاروقؔ آنسو آ گئے
کیا فسانہ آ گیا انجام پر