Farooq Engineer

فاروق انجینئر

  • 1960

فاروق انجینئر کے تمام مواد

27 غزل (Ghazal)

    نہ جانے کس نے کہا تھا بھٹکتے آہو سے

    نہ جانے کس نے کہا تھا بھٹکتے آہو سے مہک رہا ہے یہ جنگل تری ہی خوشبو سے جھلس رہا تھا کئی دن سے آنکھ کا صحرا یہ دشت ہو گیا سیراب ایک آنسو سے وہ ہجر تھا کہ اندھیرا سا چھا گیا دل میں وہ یاد تھی کہ چمکنے لگے تھے جگنو سے مرے لیے تو وہ دیوان میرؔ جیسا تھا ہوا تھا نم کبھی کاغذ جو پہلے ...

    مزید پڑھیے

    آسماں پر بنے تھے چہرے سے

    آسماں پر بنے تھے چہرے سے لوگ یاد آئے بھولے بسرے سے کتنے سورج زمین میں سوئے نور پھوٹے گا ذرے ذرے سے آنکھ میں آ گیا ہے اک آنسو دشت سیراب ایک قطرے سے سبز موسم ہے صحن میں لیکن زرد رت جھانکتی ہے کمرے سے عمر کتنی بھی ہو مگر شہرت باز آتی کہاں ہے نخرے سے غم بھی درویش ہو گیا فاروقؔ کم ...

    مزید پڑھیے

    شکر ہم نے نہ کچھ شکایت کی

    شکر ہم نے نہ کچھ شکایت کی بات ہے اپنی اپنی خصلت کی ایسا ہموار راستہ کب تھا کیا ضرورت تھی اتنی عجلت کی کہتی رہتی ہے بوڑھی گمنامی کتنی چھوٹی تھی عمر شہرت کی یاس امید غم خوشی خواہش گھر میں ہر چیز ہے ضرورت کی ہیں مقدر عذاب کے موسم کوئی رت ہو نصیب راحت کی دن ڈھلے ہوگا جشن ...

    مزید پڑھیے

    انگلی فگار کوئی نہ خوں میں قلم ہوا

    انگلی فگار کوئی نہ خوں میں قلم ہوا کب ہم سے اپنے درد کا قصہ رقم ہوا روئے تمام عمر مگر اس ہنر کے ساتھ آنسو پلک پہ آیا نہ کاغذ ہی نم ہوا گھر چھوڑ آئے آپ بھی اچھا کیا حضور یہ تو جنوں کی راہ میں پہلا قدم ہوا رہ رہ کے سر اٹھاتی رہیں کتنی خواہشیں ان باغیوں میں سر بھی کسی کا قلم ...

    مزید پڑھیے

    بات میں کچھ مگر بیان میں کچھ

    بات میں کچھ مگر بیان میں کچھ رنگ بدلا ہر ایک آن میں کچھ یوں ہی قائم نہیں ہے یہ دنیا لوگ اچھے ہیں اس جہان میں کچھ مرثیہ ہو گیا چراغوں کا جب بھی لکھا ہوا کی شان میں کچھ قتل ہونے ہیں سب کے سب کردار موڑ ایسے ہیں داستان میں کچھ اس کو دیکھا ملی پلک سے پلک جان سی آ گئی ہے جان میں ...

    مزید پڑھیے

تمام