درخت اب کس کا رستہ دیکھتے ہیں
درخت اب کس کا رستہ دیکھتے ہیں
مسافر منزلوں کے ہو گئے ہیں
خدا جانے ہوئی ہے بات کیسی
مخالف سب کے سب اپنے ہوئے ہیں
وہاں تو عشق ہے اک کھیل گویا
یہاں تو جان کے لالے پڑے ہیں
کہیں گونجا ہے کوئی قہقہہ کیا
فضاؤں میں بھنور سے پڑ رہے ہیں
اسی دنیا میں ہیں کتنی ہی دنیا
سبھی کے اپنے اپنے مسئلے ہیں
ہمارے ذہن تو مفلوج تھے ہی
ہمارے دل بھی پتھر ہو گئے ہیں
دریچے بند دروازے مقفل
بیاباں کے مگر رستے کھلے ہیں
کہاں فاروقؔ روشن خواب ہوں گے
ہماری آنکھوں میں تو رت جگے ہیں