بات میں کچھ مگر بیان میں کچھ
بات میں کچھ مگر بیان میں کچھ
رنگ بدلا ہر ایک آن میں کچھ
یوں ہی قائم نہیں ہے یہ دنیا
لوگ اچھے ہیں اس جہان میں کچھ
مرثیہ ہو گیا چراغوں کا
جب بھی لکھا ہوا کی شان میں کچھ
قتل ہونے ہیں سب کے سب کردار
موڑ ایسے ہیں داستان میں کچھ
اس کو دیکھا ملی پلک سے پلک
جان سی آ گئی ہے جان میں کچھ
صرف لطف سفر کی بات نہیں
اب مزہ بھی کہاں تھکان میں کچھ
سب سمجھتا ہے اپنے مطلب کی
کوئی بولے کسی زبان میں کچھ
کیا بھروسہ ہے اس کا اے فاروقؔ
آن میں کچھ ہے اور آن میں کچھ