نہ جانے کس نے کہا تھا بھٹکتے آہو سے
نہ جانے کس نے کہا تھا بھٹکتے آہو سے مہک رہا ہے یہ جنگل تری ہی خوشبو سے جھلس رہا تھا کئی دن سے آنکھ کا صحرا یہ دشت ہو گیا سیراب ایک آنسو سے وہ ہجر تھا کہ اندھیرا سا چھا گیا دل میں وہ یاد تھی کہ چمکنے لگے تھے جگنو سے مرے لیے تو وہ دیوان میرؔ جیسا تھا ہوا تھا نم کبھی کاغذ جو پہلے ...