انگلی فگار کوئی نہ خوں میں قلم ہوا

انگلی فگار کوئی نہ خوں میں قلم ہوا
کب ہم سے اپنے درد کا قصہ رقم ہوا


روئے تمام عمر مگر اس ہنر کے ساتھ
آنسو پلک پہ آیا نہ کاغذ ہی نم ہوا


گھر چھوڑ آئے آپ بھی اچھا کیا حضور
یہ تو جنوں کی راہ میں پہلا قدم ہوا


رہ رہ کے سر اٹھاتی رہیں کتنی خواہشیں
ان باغیوں میں سر بھی کسی کا قلم ہوا


دیکھا تھا خود کو میں نے تجھے دیکھنے کے بعد
یہ تو گناہ مجھ سے خدا کی قسم ہوا


ہے طرز گفتگو بھی وہی دوست بھی وہی
دشمن تو میری جان کا میرا بھرم ہوا


فاروقؔ اب کسی سے شکایت کریں تو کیا
ہم کو ہی اپنے ہونے کا احساس کم ہوا