شکر ہم نے نہ کچھ شکایت کی
شکر ہم نے نہ کچھ شکایت کی
بات ہے اپنی اپنی خصلت کی
ایسا ہموار راستہ کب تھا
کیا ضرورت تھی اتنی عجلت کی
کہتی رہتی ہے بوڑھی گمنامی
کتنی چھوٹی تھی عمر شہرت کی
یاس امید غم خوشی خواہش
گھر میں ہر چیز ہے ضرورت کی
ہیں مقدر عذاب کے موسم
کوئی رت ہو نصیب راحت کی
دن ڈھلے ہوگا جشن تنہائی
التجا ہے غموں سے شرکت کی
یاد آیا وہ ٹوٹ کر فاروقؔ
رات بارش تھی کیا قیامت کی