اب احترام ہی کہیے اسے کہ ڈر کے گئے
اب احترام ہی کہیے اسے کہ ڈر کے گئے ترے دیار میں سارے سوار اتر کے گئے ہے برگ و بار کا گرنا تو قرض موسم کا ہوائے تند پرندے کہاں شجر کے گئے ہو شہر شہر خموشی کا کچھ سبب شاید مگر وہ شور و شغب بھی تو بحر و بر کے گئے مری ہی جان کے دشمن ہیں شاہکار مرے مرے خلاف کرشمے مرے ہنر کے گئے ہر اک ...