Farooq Engineer

فاروق انجینئر

  • 1960

فاروق انجینئر کی غزل

    اب احترام ہی کہیے اسے کہ ڈر کے گئے

    اب احترام ہی کہیے اسے کہ ڈر کے گئے ترے دیار میں سارے سوار اتر کے گئے ہے برگ و بار کا گرنا تو قرض موسم کا ہوائے تند پرندے کہاں شجر کے گئے ہو شہر شہر خموشی کا کچھ سبب شاید مگر وہ شور و شغب بھی تو بحر و بر کے گئے مری ہی جان کے دشمن ہیں شاہکار مرے مرے خلاف کرشمے مرے ہنر کے گئے ہر اک ...

    مزید پڑھیے

    کئی چہروں میں دیکھا جا رہا ہوں

    کئی چہروں میں دیکھا جا رہا ہوں زمانے کی نظر کا واہمہ ہوں یہ دنیا کیا خبر اب کے بچے گی میں اپنا مرثیہ خود لکھ رہا ہوں تجسس اب نظر کا اور کیا ہے جدھر سب دیکھتے ہیں دیکھتا ہوں حقیقت آئنہ جانے گا لیکن تری خاطر سنورنا چاہتا ہوں کبھی بنتا ہے کوئی لفظ پیکر یوں لکھنے کو مسلسل لکھ رہا ...

    مزید پڑھیے

    چھانو نہیں شجر نہیں

    چھانو نہیں شجر نہیں اور تو ہم سفر نہیں دل سے دھواں اٹھا مگر راکھ نہیں شرر نہیں آٹھ پہر اداس ہوں شام نہیں سحر نہیں یہ تو مقام اور ہے دشت نہیں گھر نہیں دیکھ لہو ہے آنکھ میں اشک نہیں گہر نہیں آس کی شاخ پر کہیں برگ نہیں ثمر نہیں اس کو خبر ہے مجھ میں کیا عیب نہیں ہنر نہیں

    مزید پڑھیے

    گل و گلزار گہر چاند ستارے بچے

    گل و گلزار گہر چاند ستارے بچے رنگ و بو نور کے پیکر ہیں یہ سارے بچے آئنے ہیں کہ دمکتے ہوئے چہرے ان کے ایسے شفاف کہ دریاؤں کے دھارے بچے کتنے معصوم کے یہ سانپ پکڑنا چاہیں کتنے بھولے ہیں کہ چھوتے ہیں شرارے بچے آنے والوں کو بتا دیتے ہیں گھر کی باتیں کب سمجھتے ہیں یہ آنکھوں کے اشارے ...

    مزید پڑھیے

    ہے ایسا وقت کہ خود پر کرم کیا جائے

    ہے ایسا وقت کہ خود پر کرم کیا جائے ضرورتوں کو ذرا اپنی کم کیا جائے ہو اپنی آنکھوں میں ہر دم وہ ایک ہی چہرہ سو اپنی آنکھوں پہ ایسا ہی دم کیا جائے قبولیت کا سبب ایک یہ بھی ہو شاید دعا کے وقت میں آنکھوں کو نم کیا جائے وہ ساتھ چھوڑ گیا تو ملال کیا اس کا بچھڑ گیا جو کہیں اس کا غم کیا ...

    مزید پڑھیے

    یہ سچ ہے وفا اس نے وعدہ کیا

    یہ سچ ہے وفا اس نے وعدہ کیا تماشا مگر کچھ زیادہ کیا سلیقے سے رکھا ہر اک چیز کو یوں کمرے کو اپنے کشادہ کیا کڑے کوس پگ پگ جھلستی زمیں یہ رستہ بھی طے پا پیادہ کیا یوں ہی اپنے گھر سے نکل آئے ہیں سفر آج پھر بے ارادہ کیا ہر اک بات دل مانتا ہے مری کوئی یار تو سیدھا سادہ کیا طرف دار ...

    مزید پڑھیے

    فیصلے وہ نہ جانے کیسے تھے

    فیصلے وہ نہ جانے کیسے تھے رات کی رات گھر سے نکلے تھے یاد آتے ہیں اب بھی رہ رہ کر شہر میں کچھ تو ایسے چہرے تھے کیا زمانہ تھا وہ کہ ہم دونوں ایک دوجے کا دکھ سمجھتے تھے کس کڑی دھوپ کے سفر میں ہیں نام پیڑوں پہ جن کے لکھے تھے جانے کس گل بدن کی یاد آئی فصل گل میں اداس بیٹھے تھے وقت سا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3