Farooq Engineer

فاروق انجینئر

  • 1960

فاروق انجینئر کی غزل

    موسم نے رخصتی جو سنائی بہار کی

    موسم نے رخصتی جو سنائی بہار کی بھر آئی آنکھ گل ہی نہیں خار خار کی جائیں تو جائیں بچھڑے ہوئے لوگ کس طرف ہیں پھول نقش پا کے نہ خوشبو غبار کی اک پل دلوں کے درمیاں قائم ہے آج تک طوفاں نے توڑنے کی تو کوشش ہزار کی مدت سے تک رہا ہے مری راہ روزگار اے عشق خوب تیری روش اختیار کی اکثر ہیں ...

    مزید پڑھیے

    بہت خوب نقشہ مرے گھر کا ہے

    بہت خوب نقشہ مرے گھر کا ہے کوئی خواب پھر بھی نئے گھر کا ہے جو تیرے سوا دل میں کوئی نہیں تو کیوں شور اس میں بھرے گھر کا ہے فضا ہے معطر ہوا ہے خنک یقیناً یہ رستہ ترے گھر کا ہے زمانے کی دل کو ہوا لگ گئی وگرنہ یہ لڑکا بھلے گھر کا ہے سفر زندگی ہے تو فاروقؔ پھر خیال ایسے میں کس لیے گھر ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں تو ہیں جو ترے ساتھ چلتے رہتے ہیں

    ہمیں تو ہیں جو ترے ساتھ چلتے رہتے ہیں وگرنہ لوگ تو رستے بدلتے رہتے ہیں کبھی زمانے کا غم ہے کبھی تمہارا غم غزل سنانے کے پہلو نکلتے رہتے ہیں نظر تو آتے ہیں اب پھول پھل درختوں پر یہ اور بات کہ ہم ہاتھ ملتے رہتے ہیں یہ اپنی مرضی کے مالک ہیں ان سے کچھ نہ کہو پرانے لوگ ہیں گرتے ...

    مزید پڑھیے

    پھول خوشبو چاندنی مہتاب وہ

    پھول خوشبو چاندنی مہتاب وہ پر مری خاطر ہے کوئی خواب وہ اپنی اپنی الجھنوں میں یار گم اب کہاں ہے حلقۂ احباب وہ اس قدر بیتاب آخر کس لیے یہ نہیں ہے اے دل بے تاب وہ بجھ گیا کچھ دل بھی اب کے ہجر میں اور چہرے پر کہاں ہے تاب وہ ایک صحرا کی طرح میں تشنہ لب ایک ندی کی طرح سیراب وہ دشمن ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے بچھڑنے کا ڈر ہی نہیں

    کسی کے بچھڑنے کا ڈر ہی نہیں سفر میں کوئی ہم سفر ہی نہیں بہت شوق گھر کو سجانے کا تھا مگر کیا کریں اپنا گھر ہی نہیں ابھی دل میں روشن ہے ایسا دیا ہواؤں کو جس کی خبر ہی نہیں خدا جانے کیسی خطا ہو گئی دعاؤں میں اب کے اثر ہی نہیں لکھوں زخم کو پھول دل کو چمن نہیں مجھ میں ایسا ہنر ہی ...

    مزید پڑھیے

    شجر میں شجر سا بچا کچھ نہیں

    شجر میں شجر سا بچا کچھ نہیں ہواؤں سے پھر بھی گلا کچھ نہیں کہا کیا گزرتے ہوئے ابر نے جھلستی زمیں نے سنا کچھ نہیں کناروں پہ لکھا تھا کیا کیا مگر کسی موج نے بھی پڑھا کچھ نہیں چلو اب کسی کی دعا مل گئی مرے پاس ویسے بھی تھا کچھ نہیں اسے اب بھی فاروقؔ کہتے ہو گھر اب اس میں تو گھر سا ...

    مزید پڑھیے

    سارے الزام بھول جاتا ہوں

    سارے الزام بھول جاتا ہوں میں تو دشنام بھول جاتا ہوں روز میں پوچھتا ہوں تیرا نام روز میں نام بھول جاتا ہوں دیکھتا ہوں بکھرتے پھولوں کو اپنا انجام بھول جاتا ہوں ایسا چسکا لگا ہے باتوں کا گھر کا ہر کام بھول جاتا ہوں یاد کرتا ہوں اس کو سارا دن اور سر شام بھول جاتا ہوں ایسا مصروف ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ ہو اور کوئی خواب نہ ہو

    آنکھ ہو اور کوئی خواب نہ ہو نازل ایسا کہیں عذاب نہ ہو کچھ تو محفوظ رکھیے سینے میں زندگانی کھلی کتاب نہ ہو صرف کیجے نہ اس قدر خود کو لاکھ چاہو تو پھر حساب نہ ہو اس لیے کاٹتا ہوں یہ گھڑیاں وقت کی چال کامیاب نہ ہو گونج کیسی ہے کوہساروں میں یہ کسی چیخ کا جواب نہ ہو کیا چمکتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    یہ بات الگ دل کو تری یاد نے باندھا

    یہ بات الگ دل کو تری یاد نے باندھا اس صید کو ورنہ کہاں صیاد نے باندھا کوچہ یہ کوئی اور ہی آباد کرے گا سامان جو اب کے دل برباد نے باندھا اس شہر کو اب چھوڑ کے کیا جاؤں کہ مجھ کو روکا ہے کسی آہ نے فریاد نے باندھا جو اس کی طلب ہے وہی اب میری طلب ہے کس سحر سے مجھ کو مرے ہم زاد نے ...

    مزید پڑھیے

    درختوں پر پرندے بولتے ہیں

    درختوں پر پرندے بولتے ہیں نکل گھر سے کہ رستے بولتے ہیں در و دیوار سے رونق گھروں کی دلوں کا حال چہرے بولتے ہیں یوں ہی سینوں سے کب نکلی ہیں آہیں لگے جب ٹھیس شیشے بولتے ہیں کوئی بے ساختہ جملہ کبھی تو یہ سب الفاظ طوطے بولتے ہیں ابھی تو گل فشانی ہو رہی ہے یہ دیکھیں کیا وہ آگے بولتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3