Ehtisham Akhtar

احتشام اختر

احتشام اختر کی نظم

    حسرت

    خالی گلاس کے مقدر میں ہونٹوں کا لمس ہاتھوں کی نرمی کہاں شبنم روتی ہے اسے فنا کا غم ہے لمس کی قیمت کا احساس نہیں ہے اس کو پھولوں کی آغوش میں موت بھی حسین ہو جاتی ہے زندگی کی طرح خوش قسمت ہیں وہ لفافے جن پر ثبت ہوتی ہے مہر حسین لبوں کی مجھے بھی کوئی چھولے مجھے بھی کوئی پی لے میں پھر ...

    مزید پڑھیے

    تاج محل

    دھوپ کتنی خوب صورت ہے یہاں حسیں چہروں پر دھوپ تاج محل پر دھوپ حسن خود چل کر یہاں حسن کو دیکھنے آتا ہے میں چلتے پھرتے حسن میں ایسا کھویا ہوں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تاج کو دیکھوں یا حسن گریزاں کو

    مزید پڑھیے

    بیتے ہوئے کل کا انتظار

    بادلوں کی طرح کیوں چھا گیا ہے دل پر غم وہ کون تھا جو آیا اور چلا گیا اپنی یاد کی طرح قدم کے حسیں نشاں چھوڑ کر گیا جنہیں ہواؤں نے مٹا دیا اور غبار سا اڑا دیا پتھروں کی طرح راستے خموش ہیں راستوں سے کیا کہیں فاصلے ہیں درمیاں جو وقت کی طرح چلا گیا وہ لوٹ کر نہ آئے گا شام کیوں اداس ...

    مزید پڑھیے

    روشنی کا غلام

    میرا سایہ میرے قد سے بڑا ہے لیکن جب روشنی کا زاویہ بدلے گا سایہ چھوٹا ہو جائے گا میرا سایہ روشنی کا غلام ہے

    مزید پڑھیے

    آخری خواہش

    ٹوٹی ہوئی بوتل کی طرح بے کار بے مقصد زندگی کے طاق میں رکھا ہوا ہوں میں وہ کون تھا جو چھوڑ گیا میرے وجود کے شیشے پر اپنی لہو رنگ یادوں کے نشاں اس سے پہلے کہ بارش ان نشانات کو دھو ڈالے میں ریزہ ریزہ ہو جاؤں فرش پر بکھر جاؤں وقت کے پیروں میں چبھ جاؤں فرش زمیں کو رنگیں کر دوں اور خود ...

    مزید پڑھیے

    ترک تعلق کے بعد

    اب چائے ٹھنڈی نہیں ہوگی داڑھی اب نہیں بڑھے گی اب قمیص کے بٹن نہیں ٹوٹیں گے تغافل کسی کا اب نہیں ستائے گا اب کسی کے انتظار کا غم نہیں رلائے گا تھکن اب پیروں سے نہیں الجھے گی فاصلے اب درمیاں نہیں آئیں گے دل میں اب کوئی خلش نہیں ہوگی اب دیر تک نیند آئے گی آفس جانے کے لئے مجھے اب بیوی ...

    مزید پڑھیے

    تعاقب

    خواہش کے شکاری کتے میرا پیچھا کر رہے ہیں میری بو سونگھتے ہوئے زندگی کی آخری حد تک آ گئے ہیں اب خوابوں کا گہرا غار بھی مجھے بچا نہیں سکتا

    مزید پڑھیے

    کوشش

    تمہیں بھلانے کی کوشش میں میں نے نہ جانے کتنی لڑکیوں سے جھوٹا پیار کیا ہے

    مزید پڑھیے

    میں سن نہیں سکتا

    زندگی بس کی قطار کے عشق کی طرح سطحی سہی لیکن بے کیف نہیں زندگی دل کش ہے شہر کے ہنگاموں کی طرح میں ہنگاموں کا دل دادہ ہوں خموشی سے نفرت ہے مجھے کہ میں خاموشی میں بیتے کل کی ٹک ٹک گھڑی کی طرح سن نہیں سکتا

    مزید پڑھیے

    بارش

    کل بھی بارش ہوئی تھی آج بھی بارش ہوگی اور پھر کھوکھلی عظمتیں پیدل چلتی سڑکوں پر کیچڑ اچھالتے ہوئے ہوا کی طرح گزر جائیں گی آراستہ دوکانیں یہ تماشا دیکھیں گی اور ہنسے گی

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2