ستا رہی ہے بہت مچھلیوں کی باس مجھے
ستا رہی ہے بہت مچھلیوں کی باس مجھے بلا رہا ہے سمندر پھر اپنے پاس مجھے ہوس کا شیشۂ نازک ہوں پھوٹ جاؤں گا نہ مار کھینچ کے اس طرح سنگ یاس مجھے میں قید میں کبھی دیوار و در کی رہ نہ سکا نہ آ سکا کبھی شہروں کا رنگ راس مجھے میں تیرے جسم کے دریا کو پی چکا ہوں بہت ستا رہی ہے پھر اب کیوں ...