Ehtisham Akhtar

احتشام اختر

احتشام اختر کی غزل

    ستا رہی ہے بہت مچھلیوں کی باس مجھے

    ستا رہی ہے بہت مچھلیوں کی باس مجھے بلا رہا ہے سمندر پھر اپنے پاس مجھے ہوس کا شیشۂ نازک ہوں پھوٹ جاؤں گا نہ مار کھینچ کے اس طرح سنگ یاس مجھے میں قید میں کبھی دیوار و در کی رہ نہ سکا نہ آ سکا کبھی شہروں کا رنگ راس مجھے میں تیرے جسم کے دریا کو پی چکا ہوں بہت ستا رہی ہے پھر اب کیوں ...

    مزید پڑھیے

    ورق ورق یہ فسانہ بکھرنے والا تھا

    ورق ورق یہ فسانہ بکھرنے والا تھا بچا لیا مجھے اس نے میں مرنے والا تھا شگفتہ پھول پریشاں ہوا تو غم نہ کرو کہ وہ تو یوں بھی ہوا میں بکھرنے والا تھا میں اس کو دیکھ کے پھر کچھ نہ دیکھ پاؤں گا یہ حادثہ بھی مجھی پر گزرنے والا تھا صدائے سنگ نے مجھ کو بچا لیا ورنہ میں اس پہاڑ سے ٹکرا کے ...

    مزید پڑھیے

    دل برباد کو چھوٹا سا مکاں بھی دے گا

    دل برباد کو چھوٹا سا مکاں بھی دے گا جب نیا زخم بھرے گا تو نشاں بھی دے گا پہلے گزروں گا میں امید و یقیں کی رہ سے پھر ترا پیار مجھے وہم و گماں بھی دے گا پیکر رنگ جو پل بھر میں بکھر جائے گا جاگتی آنکھوں کو خوابوں کا جہاں بھی دے گا تم جلانا مجھے چاہو تو جلا دو لیکن نخل تازہ جو جلے گا ...

    مزید پڑھیے

    مری حیات کو بے ربط باب رہنے دے

    مری حیات کو بے ربط باب رہنے دے ورق ورق یوں ہی غم کی کتاب رہنے دے میں راہگیروں کی ہمت بندھانے والا ہوں مرے وجود میں شامل شراب رہنے دے تباہ خود کو میں کر لوں بدن کو چھو کے ترے تو اپنے لمس کا مجھ پر عذاب رہنے دے ذرا ٹھہر کہ ابھی خون میں سمائی نہیں مرے قریب بدن کی شراب رہنے دے بھلا ...

    مزید پڑھیے

    ٹھہرے پانی میں نہاں ایک حسیں خواب بھی ہے

    ٹھہرے پانی میں نہاں ایک حسیں خواب بھی ہے آس کی جھیل میں عکس رخ مہتاب بھی ہے دشت تنہائی کے تپتے ہوئے ویرانے میں تیری یادوں کا ہے اک پیڑ جو شاداب بھی ہے پار کرنا بڑا مشکل ہے کہ یہ بحر‌‌ ہوس کہیں گہرا ہے بہت اور کہیں پایاب بھی ہے اس کی تصویر میں آنکھوں میں بسا لوں کہ یہ شے لاکھ ...

    مزید پڑھیے

    خواب آنکھوں میں نہاں ہے اب بھی

    خواب آنکھوں میں نہاں ہے اب بھی بجھ گئی آگ دھواں ہے اب بھی وہ مرے پاس نہیں ہے لیکن اس کے ہونے کا گماں ہے اب بھی کیا بہادر کوئی آیا ہی نہیں راہ میں سنگ گراں ہے اب بھی کوئی پیاسا ہی نہیں ہے ورنہ چشمۂ‌ شوق رواں ہے اب بھی گھر کو کاندھے پہ لیے پھرتا ہوں مجھ میں یہ تاب و تواں ہے اب ...

    مزید پڑھیے

    چراغ دل کا تھا روشن بجھا گیا پانی

    چراغ دل کا تھا روشن بجھا گیا پانی کہ بن کے سیل بلا گھر میں آ گیا پانی خلوص پیار وفا سب اسی کے ساتھ گئے محبتوں کے نشاں سب مٹا گیا پانی چڑھا ہوا تھا جو دریا اتر گیا لیکن ہماری اونچی عمارت ڈھا گیا پانی بجھے گی پیاس بھلا کیا زمیں کی اشکوں سے ہماری آنکھ میں کیوں آج آ گیا پانی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    ہزاروں سال سے میں جس کے انتظار میں تھا

    ہزاروں سال سے میں جس کے انتظار میں تھا وہ عکس خواب تو میرے ہی اختیار میں تھا وہ میری ذات کے پرتو سے ماہتاب ہوا وگرنہ کرۂ بے نور کس شمار میں تھا کوئی لگاؤ نہ تھا اب ہرے شجر سے مجھے میں برگ خشک تھا اڑتے ہوئے غبار میں تھا سفر میں یوں ہی جھلستا رہا خبر نہ ہوئی کہ ٹھنڈے پانی کا چشمہ ...

    مزید پڑھیے