حسرت
خالی گلاس کے مقدر میں
ہونٹوں کا لمس ہاتھوں کی نرمی کہاں
شبنم روتی ہے اسے فنا کا غم ہے
لمس کی قیمت کا احساس نہیں ہے اس کو
پھولوں کی آغوش میں موت بھی
حسین ہو جاتی ہے زندگی کی طرح
خوش قسمت ہیں وہ لفافے
جن پر ثبت ہوتی ہے مہر
حسین لبوں کی
مجھے بھی کوئی چھولے
مجھے بھی کوئی پی لے
میں پھر ٹوٹ پھوٹ جاؤں گا
خالی گلاس کے مقدر میں مگر
ہونٹوں کا لمس ہاتھوں کی نرمی کہاں