آخری خواہش
ٹوٹی ہوئی بوتل کی طرح
بے کار بے مقصد
زندگی کے طاق میں
رکھا ہوا ہوں میں
وہ کون تھا جو چھوڑ گیا
میرے وجود کے شیشے پر
اپنی لہو رنگ یادوں کے
نشاں
اس سے پہلے کہ بارش
ان نشانات کو دھو ڈالے
میں ریزہ ریزہ ہو جاؤں
فرش پر بکھر جاؤں
وقت کے پیروں میں چبھ جاؤں
فرش زمیں کو رنگیں کر دوں
اور خود بھی رنگیں ہو جاؤں