Afroz Rizvi

افروز رضوی

افروز رضوی کی غزل

    جب تمہارے عشق میں میں نے جلائیں انگلیاں

    جب تمہارے عشق میں میں نے جلائیں انگلیاں میرے پاگل پن پہ تم نے بھی اٹھائیں انگلیاں چاہتوں کے دائرے جب بے نشاں ہونے لگے پھر مرے خون تمنا میں نہائیں انگلیاں رات پھر ایسا ہوا کہ پیڑ کے سائے تلے یاد آئے تم تمہاری یاد آئیں انگلیاں چاہتوں کے سلسلے جب درمیاں بڑھنے لگے اس نے بالوں میں ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ سے بھی گئے عرض حال سے بھی گئے

    نگاہ سے بھی گئے عرض حال سے بھی گئے وہ برہمی ہے کہ ہم بول چال سے بھی گئے وہ لفظ جو میں تری آرزو میں لکھتی تھی وہ نقش تو مری لوح خیال سے بھی گئے مثال دیتی تھی دنیا بھی جس رفاقت کی وہ فاصلے ہیں کہ اب اس مثال سے بھی گئے وہ طائران محبت جنہیں فلک نہ ملا اڑان بھر نہ سکے اور ڈال سے بھی ...

    مزید پڑھیے

    آئینے سے تمہاری نظر دیر سے ملی

    آئینے سے تمہاری نظر دیر سے ملی مجھ کو نوید شام و سحر دیر سے ملی دریائے بے خودی کو بھنور دیر سے ملا پانی کو ساحلوں کی خبر دیر سے ملی شاید اسی لئے مجھے منزل نہ مل سکی مجھ کو تمہاری راہ گزر دیر سے ملی بے خواب راستوں میں یہ تعبیر درد دل مل تو گئی ہے مجھ کو مگر دیر سے ملی ان کو نہ مل ...

    مزید پڑھیے

    ساحل سے اٹھا ہے نہ سمندر سے اٹھا ہے

    ساحل سے اٹھا ہے نہ سمندر سے اٹھا ہے جو شور مری ذات کے اندر سے اٹھا ہے دریائے محبت کے کنارے کبھی کوئی ڈوبا ہے جو اک بار مقدر سے اٹھا ہے وہ آئے تو اس خواب کو تعبیر ملے گی جو خواب جزیرہ مرے ساگر سے اٹھا ہے میں اپنے رگ و پے میں اسے ڈھونڈ رہی ہوں جو شخص ابھی میرے برابر سے اٹھا ...

    مزید پڑھیے

    سر دیوار چنوائی گئی ہوں

    سر دیوار چنوائی گئی ہوں کبھی ہیروں میں تلوائی گئی ہوں میں عورت تھی شریک تخت کب تھی سو ملکہ کہہ کے بلوائی گئی ہوں مرے پیکر کا تھا پیہم تقاضہ میں ہر اک گام بہکائی گئی ہوں مقدس ہیں سبھی رشتے جو میرے تو کیوں بازار میں لائی گئی ہوں مری ہر سوچ پر پہرے لگے ہیں کہاں ذی عقل کہلائی گئی ...

    مزید پڑھیے

    جن کے رستوں سے سدا میں نے ہٹائے پتھر

    جن کے رستوں سے سدا میں نے ہٹائے پتھر وہ مرے سر کے لئے ڈھونڈ کے لائے پتھر میں نے دیکھا کہ مرے شیشۂ جاں پر اک دن تیرے کوچے میں ہر اک سمت سے آئے پتھر میں جسے دیکھ کے ہاتھوں میں دعائیں پہنوں وہ مجھے دیکھ کے ہاتھوں میں اٹھائے پتھر جو مجھے تیرے تعلق سے ملے میں نے وہی کبھی چومے کبھی ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے تعلقات کی تجدید کے لئے

    تجھ سے تعلقات کی تجدید کے لئے میں نے چراغ ہاتھ میں امید کے لئے پھیلی ہے میرے دل میں ترے دل کی روشنی لمحات فکریہ ہیں یہ خورشید کے لئے اک شعر تجھ پہ اس طرح لکھوں کہ جس طرح مومن کا شعر غیرت ناہید کے لئے چھیڑا ہے ایک نغمۂ شیریں بھی کو بہ کو دل نے ہلال عید کی تائید کے لئے سوئے فلک ...

    مزید پڑھیے

    ترے خیال کو موج رواں بناتے ہوئے

    ترے خیال کو موج رواں بناتے ہوئے میں پانیوں پہ چلی کشتیاں بناتے ہوئے مرے وجود کے ساحل پہ خواب بنتے ہیں تمہارے ہاتھ شب مہرباں بناتے ہوئے تمہارے ساتھ رفاقت کے خواب بنتی ہوں میں طائروں کے لئے آشیاں بناتے ہوئے زمیں سے اتنی محبت ہے مجھ کو میں ہر پل زمیں بناتی رہی آسماں بناتے ...

    مزید پڑھیے

    دیکھنے میں جو لگے شام و سحر کے ساتھی

    دیکھنے میں جو لگے شام و سحر کے ساتھی وہ تو ساتھی تھے فقط راہ گزر کے ساتھی اب کہاں ہیں وہ مرے اشک پرونے والے اب کہاں ہیں وہ مرے دیدۂ تر کے ساتھی تم کو دیکھا تو مرے دل نے کہا تم ہی تو ہو زخم دل زخم جگر زخم نظر کے ساتھی اس میں کیا شک زمن افروز رہا ہے یہ کلام ہم بھی رہتے ہیں مدام اہل ...

    مزید پڑھیے

    تمہارا استعارہ آنکھ میں ہے

    تمہارا استعارہ آنکھ میں ہے جہاں سارے کا سارا آنکھ میں ہے جہاں دو دل محبت سے ملے تھے وہ منظر وہ نظارہ آنکھ میں ہے نظر کی وسعتوں سے دل کی حد تک تمہارا ہر اشارہ آنکھ میں ہے جہاں میرے سہارے چھن گئے تھے وہ صحرا بے سہارا آنکھ میں ہے تمہارے وصل کے لمحے سے اب تک تمہارا قرب سارا آنکھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3