تجھ سے تعلقات کی تجدید کے لئے
تجھ سے تعلقات کی تجدید کے لئے
میں نے چراغ ہاتھ میں امید کے لئے
پھیلی ہے میرے دل میں ترے دل کی روشنی
لمحات فکریہ ہیں یہ خورشید کے لئے
اک شعر تجھ پہ اس طرح لکھوں کہ جس طرح
مومن کا شعر غیرت ناہید کے لئے
چھیڑا ہے ایک نغمۂ شیریں بھی کو بہ کو
دل نے ہلال عید کی تائید کے لئے
سوئے فلک نظر جو اٹھی تو وضو کیا
میری زباں نے کلمۂ توحید کے لئے
میرے لبوں نے آج قصیدے بہت پڑھے
اپنے خدائے پاک کی تمجید کے لئے
اٹھیں گے آج میری طرف جب ترے قدم
کوئی خبر نہ آئے گی تردید کے لئے
دیکھوں تجھے تو دامن توصیف کہہ اٹھے
اک حرف بھی ملے نہیں تنقید کے لئے
میں سوچتی ہوں دشت تمنا میں آج شب
آنکھیں ترس نہ جائیں تری دید کے لئے
لیکن مجھے یقیں ہے ترے آسمان پر
اترے گی چاند رات مری عید کے لئے