دیکھنے میں جو لگے شام و سحر کے ساتھی
دیکھنے میں جو لگے شام و سحر کے ساتھی
وہ تو ساتھی تھے فقط راہ گزر کے ساتھی
اب کہاں ہیں وہ مرے اشک پرونے والے
اب کہاں ہیں وہ مرے دیدۂ تر کے ساتھی
تم کو دیکھا تو مرے دل نے کہا تم ہی تو ہو
زخم دل زخم جگر زخم نظر کے ساتھی
اس میں کیا شک زمن افروز رہا ہے یہ کلام
ہم بھی رہتے ہیں مدام اہل نظر کے ساتھی
میں اکیلی ہی چلی جانب منزل افروزؔ
ہم سفر ٹھہرے مرے صرف سفر کے ساتھی