ساحل سے اٹھا ہے نہ سمندر سے اٹھا ہے

ساحل سے اٹھا ہے نہ سمندر سے اٹھا ہے
جو شور مری ذات کے اندر سے اٹھا ہے


دریائے محبت کے کنارے کبھی کوئی
ڈوبا ہے جو اک بار مقدر سے اٹھا ہے


وہ آئے تو اس خواب کو تعبیر ملے گی
جو خواب جزیرہ مرے ساگر سے اٹھا ہے


میں اپنے رگ و پے میں اسے ڈھونڈ رہی ہوں
جو شخص ابھی میرے برابر سے اٹھا ہے


رقصاں ہے مری آنکھ میں احساس کی مانند
منظر جو تری آنکھ کے منظر سے اٹھا ہے


پھولوں کو ترے رنگ نے بخشی ہے کہانی
خوشبو کا فسانہ ترے پیکر سے اٹھا ہے


اس شہر محبت میں وہ رکتا ہی نہیں ہے
جو شور ترے پیار کے محور سے اٹھا ہے


یہ اس کا رویہ یہ انا یہ لب و لہجہ
ان سب کے سبب امن و سکوں گھر سے اٹھا ہے


مہر و مہ و انجم میں اسے ڈھونڈنے والو
یہ سارا جہاں خاک کے پیکر سے اٹھا ہے


رہتا ہے مری آنکھ میں کاجل کی طرح سے
جو دور تمناؤں کے تیور سے اٹھا ہے


میں در سے ترے اٹھ کے اسی سوچ میں گم ہوں
کیا کوئی خوشی سے بھی ترے در سے اٹھا ہے


جو اس کی نظر سے کبھی افروزؔ اٹھا تھا
اس بار وہ محشر مرے اندر سے اٹھا ہے