سر دیوار چنوائی گئی ہوں
سر دیوار چنوائی گئی ہوں
کبھی ہیروں میں تلوائی گئی ہوں
میں عورت تھی شریک تخت کب تھی
سو ملکہ کہہ کے بلوائی گئی ہوں
مرے پیکر کا تھا پیہم تقاضہ
میں ہر اک گام بہکائی گئی ہوں
مقدس ہیں سبھی رشتے جو میرے
تو کیوں بازار میں لائی گئی ہوں
مری ہر سوچ پر پہرے لگے ہیں
کہاں ذی عقل کہلائی گئی ہوں
بنا کر آئنہ افروزؔ رضویؔ
ہدف پتھر کا ٹھہرائی گئی ہوں