جن کے رستوں سے سدا میں نے ہٹائے پتھر
جن کے رستوں سے سدا میں نے ہٹائے پتھر
وہ مرے سر کے لئے ڈھونڈ کے لائے پتھر
میں نے دیکھا کہ مرے شیشۂ جاں پر اک دن
تیرے کوچے میں ہر اک سمت سے آئے پتھر
میں جسے دیکھ کے ہاتھوں میں دعائیں پہنوں
وہ مجھے دیکھ کے ہاتھوں میں اٹھائے پتھر
جو مجھے تیرے تعلق سے ملے میں نے وہی
کبھی چومے کبھی آنکھوں سے لگائے پتھر
میں اسے زخم محبت پہ سجا کر رکھوں
دشت الفت سے جو میرے لئے آئے پتھر
تیری آنکھوں کے تغافل سے ترے پہلو میں
جب مرے خواب نہائے تو نہائے پتھر
اس کی خوشبو کی طلب میں جو میں گھر سے نکلی
اس نے پھولوں کی طرح مجھ پہ لٹائے پتھر
وہ ہیں پھولوں کی طرح میری نظر میں افروزؔ
جتنے بھی میرے لہو میں ہیں نہائے پتھر