نگاہ سے بھی گئے عرض حال سے بھی گئے
نگاہ سے بھی گئے عرض حال سے بھی گئے
وہ برہمی ہے کہ ہم بول چال سے بھی گئے
وہ لفظ جو میں تری آرزو میں لکھتی تھی
وہ نقش تو مری لوح خیال سے بھی گئے
مثال دیتی تھی دنیا بھی جس رفاقت کی
وہ فاصلے ہیں کہ اب اس مثال سے بھی گئے
وہ طائران محبت جنہیں فلک نہ ملا
اڑان بھر نہ سکے اور ڈال سے بھی گئے
وہ حرف مرہم ہر زخم یاد تھے افروزؔ
اب ان کے بعد تو ہم اندمال سے بھی گئے