افسانہ: بلومستری اور بابو لوگ

سورج آگ برسا رہا تھا ۔ ہوا  میں جو صبح کے وقت خنکی تھی ،اب رفتہ رفتہ ختم ہوتی جا رہی تھی ۔اب ہوا لو  کا روپ دھار رہی تھی۔ جب ہوا کی تپش اس کے چہرے کو جھلسانے  لگی تو اس نے کار  کے شیشے چڑھا دیے اور اے سی آن کر دیا ۔ وہ بہاولپور سے شاندار بزنس ڈیل کرکے واپس لوٹ رہا تھا ۔ جس ہوٹل میں کمپنی نے قیام و طعام کا انتظام کررکھا تھا۔

ہوا  میں جو صبح کے وقت خنکی تھی ،اب رفتہ رفتہ ختم ہوتی جا رہی تھی ۔اب ہوا لو  کا روپ دھار رہی تھی۔ جب ہوا کی تپش اس کے چہرے کو جھلسانے  لگی تو اس نے کار  کے شیشے چڑھا دیے اور اے سی آن کر دیا ۔ وہ بہاولپور سے شاندار بزنس ڈیل کرکے واپس لوٹ رہا تھا ۔ جس ہوٹل میں کمپنی نے اس کے قیام و طعام کا انتظام کر رکھا تھا، وہ آٹھ بجے وہاں سے ناشتہ کرکے عازم سفر ہوا تھا ۔
اس وقت اسے تین گھنٹے ہو چکے تھے سفر کرتے ہوئے ۔اس دوران اس نے ایک دفعہ ایک فلنگ اسٹیشن پر رک کر پٹرول بھروایا تھا اور کوک اور سنیکس لیے تھے ۔
جب انسان سفر کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کا ذہن بھی متحرک ہوتا ہے ۔ کئی بچھڑے ہوئے ساتھی، جانے والے لوگ بیتے ہوئے پل اور بھولی بسری یادیں ہماری سوچ کے پردے پر نمودار ہو کر غائب ہوتی چلی جاتی ہیں۔ فہیم نے بھی ان چند گھنٹوں کے دوران اپنے بچپن سے جوانی تک کی ساری کہانی ایک فیچر فلم کی طرح دیکھ لی تھی۔ ایک متمول گھرانے میں آنکھ کھولنے والے فہیم نے شاید ہی زندگی میں کبھی کسی دشواری کا سامنا کیا ہو۔ زندگی نے ہمیشہ ہر موڑ پر مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ اس کا استقبال کیا تھا۔۔۔ ایک ماں کی طرح ۔۔۔!
بہترین اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب حاصل کرنا اس کے لئے مشکل نہ تھا . جلد ہی اپنی لگن اور شوق کی بدولت وہ ایریا مینیجر کی ایگزیکٹو پوسٹ تک پہنچ گیا تھا ۔ اپنی کامیابیوں کا ری کیپ دیکھ کر وہ مسلسل مسکرائے جا رہا تھا۔ اس کی مسکان میں سکون تھا ۔۔۔طمانیت تھی ۔۔۔۔تشکر تھا ۔
اچانک کار نے ایک جھٹکا کھایا اور رفتہ رفتہ اس کی رفتار کم ہونے لگی۔۔۔ بلآخر وہ چند جھٹکے کھانے کے بعد رک گئی۔
"اوہ۔۔شٹ۔۔۔" بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا ۔ کار میں کوئی خرابی آگئی تھی۔ فہیم نے کار کا دروازہ کھولا اور باہر آگیا ۔
وہ گرد و پیش کا جائزہ لینے لگا ۔
کھیتوں کے بیچوں بیچ ایک سڑک گزر رہی تھی۔۔۔ جس کے کنارے پر وہ کھڑا تھا ۔۔۔ دور تک کوئی زی روح دکھائی نہ پڑتا تھا۔۔۔ اس نے کار کا بونٹ کھولا اور کار میں خرابی ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔ گاڑیوں کے انجن کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتا تھا کیونکہ آج تک کبھی ایسی نوبت ہی نہیں آئی تھی ۔ جب کافی کوشش کے بعد اسے کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے بونٹ بند کر دیا اور دوبارہ کار میں آکر بیٹھ گیا ۔
تھوڑی ہی دیر میں باہر دھوپ میں کھڑا ہونے سے اس کی شرٹ پسینے سے بھیگ گئی تھی۔ گرم ہوا نےجیسے اس کی ساری توانائی چوس لی تھی ۔ اس نے پانی کی بوتل سے چند گھونٹ پانی پی کر اپنے خشک ہوتے ہوئے حلق کو ترکیا ۔
اب وہ اس صورتحال سے نکلنے کے بارے میں غور کرنے لگا۔ ایک صورت تو یہ ہو سکتی تھی کہ وہ کسی سے لفٹ لے کر  کسی قریب کی آبادی میں جاکر مکینک کو لے آئے۔۔۔ اور دوسری صورت یہ کہ مکینک کسی طرح خود ہی آجائے۔ 
پہلی صورت میں اتنی قیمتی گاڑی کو اس ویران سے علاقے میں چھوڑ کر جانا مناسب نہیں لگتا تھا اور دوسری صورت میں مکینک کو یہ بشارت ہونا ناممکن لگتا تھا کہ فلاں جگہ فلاں شخص کی کار خراب ہے۔ اسے ٹھیک کر آئے۔ 
فہیم بے یقینی کے عالم میں دعا کرنے لگا کہ کوئی بھولا بھٹکا مکینیک اس طرف آ نکلے۔ جی ہی جی میں وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ زندگی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اسے دعا کرکے کچھ مانگنا پڑا ہو اور اگر آج مانگا بھی تو کیا۔۔۔ ایک میکینک! کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ بہت تیقن کے ساتھ مانگی ہوئی دعا کو شرف قبولیت نہیں مل پاتا۔۔۔اور  کبھی بے یقینی میں مانگی ہوئی دعا فوراً لی جاتی ہے ۔
کس کی دعا کو کب قبول کرنا ہے یہ اس کے رازوں میں سے ایک راز ہے ۔ 
فہیم کی دعا سن لی گئی۔
 اس کی کار کے قریب سے ایک گندے مندے کپڑوں میں ملبوس  ایک شخص موٹر سائیکل پر گزرا ۔۔۔ تھوڑا سا آگے جا کر پلٹا اور کار کے قریب موٹر سائیکل، جو اس کے کپڑوں سے بھی زیادہ بری حالت میں تھی، روک کر بولا۔
" کیوں بابو جی... کیا مسلہ ہے؟ "
 اس نے گھنی مونچھوں کی آڑ سے مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی۔
"جی... گاڑی میں کچھ مسئلہ ہے ...چلتی چلتی رک گئی ہے"
فہیم نے ملتمس سے لہجے میں کہا۔
" بس پھر سمجھو رب نے  سن لی آپ کی... بندے کو بلو مستری کہتے ہیں." اس نے خوشی سے کہا۔۔۔فہیم نے آسمان کی طرف دیکھا۔۔
"اتنی جلدی سن لی" اس نے دل ہی دل میں سوچا .فہیم نے کار کا بونٹ کھول کر اسے چیک کروایا .
"لو جی... یہ تو کوئی وڈا  مسئلہ ہی نہیں۔۔۔ آپ گاڑی میں بیٹھیں۔۔ میں جب کہوں۔۔ سٹارٹ کرنا گاڑی کو ۔۔۔بس پانچ منٹ کا کام ہے" بابو مستری نے کہا۔
 فہیم کار میں آ کر بیٹھ گیا اسے اس وقت بلو مستری ایک مسیحا معلوم ہو رہا تھا جو کسی موت سے لڑتے ہوئے مریض کا آپریشن کرنے میں مصروف ہو۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سی متانت تھی۔ ایک عجیب سا نور تھا۔
 تھوڑی دیر بعد اس نے با آواز بلند کہا ۔
"سٹارٹ کرو باؤجی " فہیم نے ایگنیشن میں جابی گھمائی تو گاڑی ایک نعرہ مستانہ لگا کر اسٹارٹ ھوگی۔با بو مستری نے بونٹ بند کیا اور فہیم کے قریب آ کر بولا ۔
لو جی۔۔۔ باؤ جی ۔۔۔اب یہ آپ کو گھر پہنچا کر ہی رکے گی انشاءاللہ "
'بہت شکریہ بھائی صاحب! آپ تو میرے لئے فرشتہ ثابت ہوئے ورنہ پتہ نہیں میں کب تک یونہی گرمی میں ذلیل ہوتا رہتا ہے "فہیم نے ممنونیت کے ساتھ کہا .
"کوئی بات نہیں بابو جی ... ہمارا تو کام ہی یہی ہے ۔ یہ جو دنیا ہے ناں بابو جی۔۔۔ یہ بھی ایک گاڑی کی طرح ہے اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر آپ جیسے بابو لوگ ہیں لیکن اس گاڑی کو رواں ہم جیسے بلو مستریوں نے رکھا ہوا ہے۔۔۔ رب رکھا "
بلو مستری نے مسکراتے ہوئے کہا اور اپنی خستہ حال موٹرسائیکل سٹارٹ کر کے چل دیا.
 باقی رستہ وہ بلو مستری کے لفظوں کے بارے میں  سوچتا رہا۔۔۔ کتنی گہری بات کہہ گیا تھا وہ۔۔۔ واقعی یہ بابو لوگ اسی لیے بابو لوگ ہیں کہ ان کی مدد کے لیے ہر جگہ کوئی بلو مستری ہے۔۔ یہ ان ہی محنت کشوں کی کوششوں سے ہے کہ زندگی کی گاڑی بنا رکے ۔۔۔۔چلتی جا رہی ہے۔۔۔ چلتی جا رہی ہے۔۔۔۔ چلتی جا رہی ہے ۔۔۔۔!

متعلقہ عنوانات