حج 2022: حج افسانہ؛ سفرِ حج کا خواب جو سچا ہوگیا (دوسرا حصہ)

ایک ایسے عاشقِ صادق کی کہانی جسے اپنے خدا سے ملاقات کی جلدی تھی۔۔۔۔حج ہے ہی زیارت کی پیاس بجھانے کا نام۔۔۔اپنے رب کے گھر کی زیارت۔۔۔!

گزشتہ سے پیوستہ

پہلا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے: حج 2022: افسانہ؛ سفرِ حج کا خواب (پہلا حصہ)

جب اس کا شعور دوبارہ بیدار ہونا شروع ہوا تو اس نے خود کو ایک ہسپتال کے بیڈ پر دراز پایا ۔ اس کے ایک بازو میں ڈرپ کی سوئی پیوست تھی جو قطرہ قطرہ اس کی رگوں میں گلوکوز اتار رہی تھی۔ وہ کسی مہنگے ہسپتال کا کمرہ تھا ۔ اس کمرے میں ایک ہی بیڈ تھا جس پر وہ لیٹا ہوا تھا ۔بستر صاف ستھرا تھا۔ سامنے کی دیوار پر دیوار ائیر کنڈیشنر لگا ہوا تھا ۔ اس دیوار سے متصل دوسری دیوار میں چھوٹا سا دروازہ تھا جو غالباً اٹیچڈ باتھ روم کا تھا ۔ اس دروازے کے ساتھ ہی ایک خوبصورت صوفہ تھا جس پر ایک تیس پینتیس سالہ آدمی نہایت نفیس تھری پیس سوٹ میں ملبوس بیٹھا ہوا اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اسے ہوش میں اتا دیکھ کر وہ آدمی اس کے قریب آ گیا ۔

" پریشانی والی کوئی بات نہیں انکل ۔۔۔ میرا نام اسجد ہے میں ایک چھوٹا موٹا بزنس مین ہوں ۔۔۔ آپ شاید گھبراہٹ کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے تھے مارکیٹ میں ۔۔۔ میں قریب سے گزر رہا تھا ۔۔ آپ کو گرتا دیکھ کر رک گیا ۔۔ اور آپ کو یہاں لے آیا ۔۔۔ اب کیسا محسوس کر رہے ہیں آپ ؟"

" میں اب بہتر ہوں بیٹا ۔۔۔ اللّٰہ اس بھلائی کا اجر دے آپ کو ۔۔ میری وجہ سے کافی زحمت ہوئی ہو گی آپ کو ۔۔ اس کے لیے معذرت" مرید علی نے ممنونیت بھرے لہجے میں کہا ۔

"ارے نہیں انکل زحمت کیسی ۔۔۔ بس خدا نے وسیلہ بنایا ہے مجھے ۔۔۔ باقی تو اس کا کام ہے۔۔ آپ بتائیں خیریت تو ہے ناں ۔۔ ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے کہ کسی گہرے صدمے کی وجہ سے آپ اچانک بے ہوش ہو گئے تھے"

اس نے علی کے قریب بیڈ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔ اس کے لہجے میں عجب پرخلوص مٹھاس تھی۔

" نن ۔۔نہیں ایسی کوئی بات نہیں بیٹا ۔۔ یونہی گرمی اور حبس کی وجہ سے طبیعت بگڑ گئی ہو گی ۔۔ آپ نے پہلے ہی جو کچھ کیا ہے میرے لیے وہ بڑی نیکی ہے آپ کی " مرید علی نے جواب دیا ۔ اس کی ہکلاہٹ اس کے جھوٹ کی چغلی کھا رہی تھی ۔

" دیکھیے انکل ۔۔۔  آپ کو حق حاصل ہے کہ آپ اپنی پریشانی کو اپنے تک رکھیں ۔۔ اور یوں کوئی کسی کو بتاتا بھی نہیں اپنا غم ۔۔۔ لیکن میں ایک بزنس مین ہوں ۔۔ سارا دن لوگوں کے چہرے پڑھتا ہوں ۔۔ آپ کی آنکھیں بتا رہی ہیں کہ آپ کچھ چھپا رہے ہیں ۔۔ آپ اپنا بیٹا سمجھ کر اپنی پریشانی مجھ سے شئیر کر سکتے ہیں ۔۔ "

اسجد نے اسی میٹھے سے انداز میں اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ۔ اس کی باتوں میں نجانے کیا تھا کہ مرید علی کا جی بھر آیا اور وہ پجوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔۔۔ وہ اسے روتا دیکھ کر "ارے ۔۔۔ ارے" ہی کرتا رہ گیا ۔ کافی جی ہلکا کر لینے کے بعد مرید علی نے اسے ساری رام کہانی کہہ سنائی ۔

" بس۔۔۔ اتنی سی بات پہ آپ یوں بچوں کی طرح رو رہے ہیں" اس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔

" یہ اتنی سی بات نہیں ہے بیٹا ۔۔ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش جڑی ہوئی ہے اس کے ساتھ ۔۔۔ میں نے بڑی محبتوں اور عقیدتوں سے پروان چڑھایا ہے اس آرزو کے پودے کو ۔۔۔ اب اس کو یوں مرجھاتا ہوا کیسے دیکھوں"

مرید علی نے بڑے کرب سے کہا جس کے جواب میں اسجد نے آہستہ سے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔

" آپ کے حج کا انتظام ہو جائے گا انکل"

" لیکن کیسے؟ ۔۔۔ میرے اسباب ناکافی ہیں ۔۔۔ اور اب تو حالات بھی مسدود ہوتے جا رہے ہیں ۔۔۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے ۔۔۔ اب مزید بچت کرنا محال ہے ۔۔۔ ایسے میں کیسے انتظام ہو جائے گا ؟ " مرید علی نے پوچھا ۔

" انکل ۔۔۔ جس در کی زیارت  کی تڑپ آپ کو دن رات بے چین رکھتی ہے وہاں اسباب نہیں پہنچاتے ۔۔۔ یہ عشق کا سفر ہے جس کے لیے پروں کی قید نہیں ہوتی۔۔۔ آپ بے فکر ہو جائیں آپ کو آپ کے خوابوں کی جنت میں پہچانا اب میرے ذمے ہے"  اسجد کے کہے ہوئے الفاظ سن کر جیسے وہ جی اٹھا ۔۔ لیکن وہ حیران بھی تھا کہ ایک انجان آدمی کے اوپر وہ اتنا بڑا احسان کیوں کرے گا۔ مرید علی کے استفسار پر وہ بولا۔

" یہ سب میں ایک ذاتی وجہ سے کروں گا ۔۔ یقین جانیے میری کوئی بھی آپ پر احسان کرنے یا ترس کھانے کی نیت اس میں شامل نہیں ہے"

"لیکن میری تسلی کے لیے اگر تم مناسب سمجھو تو بتا دو" وہ بے خیالی میں آپ سے تم پر آ گیا ۔۔ شاید رفتہ رفتہ اپنائیت کی وجہ سے تکلف مٹنے لگا تھا ۔

"چلیے اگر آپ کی یونہی تسلی ہوتی ہے تو بتانے میں کچھ حرج بھی نہیں"

یہ کہہ کر وہ دوبارہ صوفے پر جا کر بیٹھ گیا ۔

"میری اپنی ایڈورٹائزنگ کمپنی ہے ۔ اللّٰہ کے فضل سے کروڑوں کا بزنس ہے ۔۔۔ لیکن یہ سب ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا ۔۔۔ میرے والد  ریلوے میں ملازمت کرتے تھے ۔ بہت نیک اور ایماندار آدمی تھے ۔ آپ جانتے ہیں کہ اس ملک میں نیک اور ایماندار آدمی مشکل سے گزر بسر ہی کرتا ہے۔ ہمارا بھی بس گزارا ہی ہوتا رہا ۔ میں ان کی اکلوتی اولاد تھا اس لیے انہوں نے روکھی سوکھی کھا کر بھی میری تعلیم وترتیب کی ذمہ داری بہت احسن طریقے سے سر انجام دی۔ جب میں چھٹی جماعت میں تھا تب ایک صبح میں نے اپنے والد صاحب کو ایک خواب کا ذکر میری والدہ سے کرتے ہوئے سنا جس میں انہوں نے دیکھا تھا کہ میں ان کو حج بیت اللہ کروا رہا ہوں ۔ وہ اس دن بہت خوش تھے ۔

اس دن کے بعد وہ اکثر اس خواب کا ذکر کر کے آب دیدہ ہو جایا کرتے اور مجھے ڈھیروں دعائیں دیا کرتے ۔ وقت گزرتا گیا ۔۔وہ بوڑھے اور میں جوان ہو گیا ۔ میں نے ایم بی اے کرنے کے بعد ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی میں نوکری کرلی ۔تب تک ابو بہت ضعیف ہو چکے تھے اور والدہ راہی عدم ہو چکی تھیں ۔ نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد ابو بس اب اللّٰہ اللّٰہ ہی کیا کرتے تھے ۔  مجھے ان کا خواب یاد تھا ۔۔۔ میں نے اس خواب کو پورا کرنے کے لیے دن رات محنت شروع کر دی ۔ میں نے کافی رقم جمع کر لی تھی ۔اب ان کے حج کے لیے کاغذات کی تیاری کا مرحلہ شروع ہونے کو ہی تھا کہ وہ بھی چل  بسے ۔ میں نے خود کو بہت کوسا کہ ان کا ایک ہی خواب تھا جو میں پورا نہیں کر سکا تھا ۔ میں نے نوکری چھوڑ دی اور جو رقم جمع کی تھی اس سے چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر دیا جس میں خدا نے بہت برکت ڈالی۔

جب دولت کی چار سو ریل پیل تھی تب میں نے سوچا کہ اپنے والد کی خواہش کی تکمیل کے لیے اللّٰہ کے گھر حاضری دوں ۔۔۔ میں نے کئی عمرے کیے ۔۔ دو بار حج کی سعادت بھی حاصل کر چکا ہوں لیکن نجانے کیوں ہر بار واپسی پر ایک قلق رہ جاتا کہ کاش اس خوبصورت سفر میں ابو بھی میرے ساتھ ہوتے ۔۔۔ نجانے کیوں میرا دل کہتا تھا کہ میں ان کی خواہش پوری نہیں کر پایا۔

آپ کی حالت دیکھ کر اچانک سالوں سے الجھی ہوئی گتھی سلجھ گئی ہے ۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اس برس آپ میرے ہمراہ ہوں گے تو ان کی روح عالم بالا میں بہت خوش ہو گی ۔ میں نے اپنی زندگی میں ان آنکھوں سے اس سر زمین کی ہوا کے لیے یا تو اپنے ابو کو اس شدت سے تڑپتے ، بلکتے دیکھا ہے یا آپ کو "

مرید علی نے اس کی بات سن کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔ آنکھیں بند کرتے ہی وہ اندھیرا جو پورے عالم پر چھانے لگا تھا اب روشنی میں بدلنے لگا ۔۔ اس کی آنکھوں سے دوبارہ اشکوں کی جھڑی شروع ہو گئی ۔۔۔ لیکن اب کی بار یہ جھڑی شکرانے کے آنسوؤں کی تھی جو اس کی روح کو تازگی بخش رہی تھی ۔

"آپ پھر رونے لگے؟" اسجد نے پوچھا۔

" یہ شکرانے کے آنسو ہیں بیٹا" مرید علی نے اسی طرح آنکھیں بند کیے ہلکی سی آواز میں جواب دیا ۔

اسجد کے دل کے کسی نہاں گوشے سے کوئی سرگوشی کر رہا تھا ۔۔۔

" میرا حج ہو گیا بیٹا۔۔۔ سلامت رہو!"

متعلقہ عنوانات