کیوں ذہن میں یہ کھولتا لاوا ہوتا
کیوں ذہن میں یہ کھولتا لاوا ہوتا خود آپ پہ رحم آئے نہ ایسا ہوتا ہونا تھا تعارف کہ قیامت ٹوٹی اے کاش کہ اپنے کو نہ جانا ہوتا
کیوں ذہن میں یہ کھولتا لاوا ہوتا خود آپ پہ رحم آئے نہ ایسا ہوتا ہونا تھا تعارف کہ قیامت ٹوٹی اے کاش کہ اپنے کو نہ جانا ہوتا
احساس کے ہر رنگ کو اپنا لیتا ہنس لیتا گا لیتا غم کھا لیتا ادراک لگاتا ہے کچوکے ورنہ دل کو میں کھلونوں سے بھی بہلا لیتا
دولت نے معاونت جو کی تو کیا کی طالع نے مساعدت جو کی تو کیا کی پیری میں نہیں فائدہ کچھ بھی اے شورؔ دنیا نے موافقت جو کی تو کیا کی
جب تک ہے شباب سازگار دولت ہر قصر میں سو نقش و نگار دولت پیری آئی تو شورؔ صاحب پھر کیا سب خاک میں مل گئی بہار دولت
کچھ کام نہیں گبرو مسلماں سے ہمیں ہے کفر سے کچھ بحث نہ ایماں سے ہمیں رہنے کے لیے دیر و حرم ہیں یکساں اک روز سفر کرنا ہے پھر یاں سے ہمیں
کچھ تیرا ثمر نہ اے جوانی پایا سرما زدہ باغ زندگانی پایا جی خاک لگے شورؔ کہ اس گلشن میں جو پھول کھلا اسی کو فانی پایا
پیری میں خاک زندگانی کا مزہ دانے کا ہے لطف اور نہ پانی کا مزہ وہ مے کشی و ذوق کہاں ہے اے شورؔ تا مرگ نہ بھولیں گے جوانی کا مزہ
کعبہ میں تو صدق اور صفا کو پایا بت خانے میں ناز اور ادا کو پایا حاصل نہ ہوا کہیں سے دل کا مقصد جب خود ہی میں ڈھونڈھا تو خدا کو پایا
کیا وصف لکھوں زلف سیہ کی لٹ کا ہر پیچ میں اک دل کو لیا ہے لٹکا اے شانہ زہے قسمت عالی تیری کیا خوب ترے ہاتھ لگا ہے لٹکا
گرجا میں گئے تو پارسائی دیکھی اور دیر میں جا کے خود نمائی دیکھی جب چھوڑا خودی کو غور کر کے اے شورؔ دیکھا تو ہر اک سمت خدائی دیکھی