یہ قول کسی بزرگ کا سچا ہے
یہ قول کسی بزرگ کا سچا ہے ڈالی سے جدا نہ ہو تو پھل کچا ہے چھوڑی نہیں جس نے حب دنیا دل سے گو ریش سفید ہو مگر بچا ہے
یہ قول کسی بزرگ کا سچا ہے ڈالی سے جدا نہ ہو تو پھل کچا ہے چھوڑی نہیں جس نے حب دنیا دل سے گو ریش سفید ہو مگر بچا ہے
ساقی و شراب و جام و پیمانہ کیا شمع و گل و عندلیب و پروانہ کیا نیک و بد و خانقاہ و مے خانہ کیا ہے راہ یگانگی میں بیگانہ کیا
کرتا ہوں سدا میں اپنی شانیں تبدیل طوفان میں تھا نوح تو آتش میں خلیل فی الحال ہوں ظاہر میں اگر اسماعیل ہوں عالم باطن میں وہی رب جلیل
کافر کو ہے بندگی بتوں کی غم خوار مومن کے لئے بھی ہے خدائے غفار سب سہل ہے یہ ولیک ہونا دشوار آزادہ و بے نیاز و بیکس بے کار
بدلا نہیں کوئی بھیس ناچاری سے ہر رنگ ہے اختیار سرکاری سے بندہ شاہد ہے اور طاعت زیور یہ سانگ بھرا گیا ہے عیاری سے
صحرا میں بھٹکتا ہوا اک دریا ہوں آیا نہ تڑپنا جسے وہ پارہ ہوں یہ کیا ہے یہ انداز رفاقت کیا ہے ہے ایک جہاں ساتھ مگر تنہا ہوں
وہ تاج ہے سر پر کہ دبا جاتا ہوں کس راکھ میں کھویا سا چلا جاتا ہوں لمحات کے جھونکو نہ ستاؤ اتنا محسوس یہ ہوتا ہے بجھا جاتا ہوں
چھایا ہے بگولوں کا فسوں منزل تک موجوں سے کہو لے کے چلیں ساحل تک کیوں الجھی ہوئی ڈور ہوئی جاتی ہے اک راہ وہ جاتی ہے جو دل سے دل تک
امیدوں کا اک ہار بن ٹوٹ گیا دل جیسے کوئی آبلہ تھا پھوٹ گیا دیکھا تھا نظر بھر کے جہاں دنیا کو احساس کا وہ موڑ کہاں چھوٹ گیا
نادیدہ خلاؤں سے گزر آئی ہے کس طرح اٹھائے ہوئے سر آئی ہے احساس کے پیچیدہ مراحل کی قسم چہرے کی تھکن دل میں اتر آئی ہے